عرب بہار کے بعد پہلے علاقائی انتخابات، النہضہ کی برتری
7 مئی 2018
تیونس میں سن 2011 کی ’عرب بہار‘ کے بعد پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق ان انتخابات میں قدامت پسند اسلامی جماعت ’حرکت النہضہ‘ نے برتری حاصل کر لی ہے۔
اشتہار
علاقئی انتخابات کا انعقاد اتوار چھ مئی کے روز کیا گیا تھا اور نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق عرب بہار کے بعد ہونے والے ان پہلے بلدیاتی انتخابات میں عوام کی دلچسپی کم رہی، جس کا اظہار 33.7 فیصد ٹرن آؤٹ کی صورت میں بھی دکھائی دیا۔
ابتدائی نتائج کے مطابق تیونس کے علاقائی انتخابات میں فلسفی اور مبلغ راشد الغنوشی کی جماعت ’حرکت النہضہ‘ نے 27.5 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ دوسری جانب ملک میں اس وقت برسر اور اقتدار تیونسی صدر بیجی قائد ایسبسی کی سیکولر جماعت نداء 22.5 فیصد ووٹ حاصل کر پائی۔
ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ 33.7 فیصد رہا۔ حکام نے ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی گزشتہ ہفتے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی تھی اور ان میں ووٹ ڈالنے کی شرح صرف بارہ فیصد رہی تھی۔
دنیا کا ایک معروف ترین انقلابی لیڈر ’چی گویرا‘
چی گویرا کو نو اکتوبر 1967ء کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ آج اس واقعے کو پچاس برس ہوگئے ہیں۔ منفرد بالوں اور داڑھی والے چی گویرا کو دنیا کا معروف ترین گوریلا لیڈر قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
قاتل یا انقلابی؟
چی گویرا کو کچھ لوگ ایک نظریاتی قاتل کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں دنیا میں انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک انقلابی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ ایرنسٹو گویرا عرف چی 14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے شہر روزاریو میں پیدا ہوا تھے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
کاسترو سے ملاقات
سن 1955 میں گویرا اور فیڈل کاسترو کی ایک اہم ملاقات میکسیکو میں ہوئی۔ اُس وقت وہ مشترکہ طور پر کیوبا کے ڈکٹیٹر فُلجینسیئو باتیستا کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سن 1958 میں گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں یکم جنوری سن 1959 کو باتیستا کیوبا سے فرار ہو گیا۔
تصویر: picture-alliance/KEYSTONE/STR
کیوبا کی انقلابی حکومت اور گویرا
فیڈل کاسترو نے انقلاب کے بعد پہلے گویرا کو کیوبن مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا اور پھر سن 1961 میں وزارت صنعت کا قلمدان بھی تفویض کر دیا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے بنیادی تبدیلیوں کی وکالت شروع کر دی۔ اسی دوران کیوبا میں شمالی امریکی شہریوں کی جائیدادوں کو قومیانے کے عمل میں بھی گویرا کی رائے کو اہمیت دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ڈاکٹر گویرا
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران گویرا نے کئی لاطینی ملکوں کا دورہ کیا۔ ان ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور بدعنوانی نے گویرا کے اندر جنم لیتی انقلابی تبدیلیوں کو مزید استحکام دیا۔ وہ جذام کے مریضوں کے مرکز پر جز وقتی ڈاکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کوکا کولا اور شطرنج
امریکا مخالف جذبات رکھنے کے ساتھ انقلابی لیڈر سرمایہ دارانہ نظام کی بعض نشانیوں کو پسند بھی کرتے تھے۔ سن 1961 میں اقتصادی و سماجی کانفرنس کے دوران انہیں کوکا کولا کی بوتل پیتے ہوئے دیکھا گیا۔ گویرا انقلابی ہونے کے علاوہ شطرنج کے ایک باکمال کھلاڑی بھی تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گویرا بند گلی میں
سن 1965 میں گویرا نے کیوبن رہنما فیڈل کاسترو سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انہوں نے کیوبا کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ افریقی ملک کانگو میں گوریلا فوج کو تیار کرنا چاہتے تھے تا کہ نوآبادیاتی سامراجیت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کی جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں کانگو میں جبری طور پر روانہ کیا گیا تھا۔ وہ کانگو میں بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
گویرا تنہا رہ گئے
بولیویا میں بھی چی گویرا کو کانگو کی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں پر بھی وہ کسانوں کو مزاحمتی تحریک میں شامل نہیں کر سکے اور اپنے جنگجوؤں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔ یہ تصویر 1967ء کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
گرفتاری اور ہلاکت
آٹھ اکتوبر 1967ء کے دن لا ہیگوئرا کے قریب سے چی گویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ایک دن بعد انہیں گولی مار دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہائی کمان نے انہیں گولی مارنے کے احکامات دیے تھے۔
تصویر: Getty Images
چی کی باقیات
والن گراندے کے ہسپتال کے اس دھوبے خانے میں پچاس برس قبل چی گویرا کی لاش رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد لاش کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر تحریر ہے، ’’اگر یہ تمہیں زمین کے نیچے چھپا بھی دیں تو بھی ہم تمہیں ڈھونڈ لیں گے، یہ ہمیں نہیں روک سکتے‘‘۔ اس واقعے کے تیس سال بعد چی کی باقیات کیوبا کے حوالے کی گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
چی ایک علامت
2008ء میں چی کے اسی ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے آبائی شہر میں ہزاروں افراد نے چی کا ایک مجسمہ نصب کرنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ چی کی سوانح حیات کے مصنف خورخے کاستانیئدا کے مطابق، ’’ چی گویرا ایک علامت ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Rio
10 تصاویر1 | 10
ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خراب معاشی صورت حال کے باعث تیونس کے زیادہ تر نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ رواں برس جنوری میں قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافوں کے خلاف پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
سن 2011 میں عرب بہار کا آغاز تیونس ہی سے ہوا تھا اور اس وقت عوامی انقلاب کے باعث طویل عرصے سے برسر اقتدار زین عابدین بن علی اقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔ تاہم اس انقلاب کے بعد قدامت پسند جماعت النہضہ اور سیکولر جماعت نداء کی حکومتوں کے دوران معاشی اصلاحات نہ ہونے کے سبب خاص طور پر نوجوان تیونسی مایوسی کا شکار ہیں۔
اس صورت حال کو تیونس کی جمہوریت کے لیے ایک دھچکا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم علاقائی انتخابات میں جیت کے بعد عوامی عدم دلچسپی سے قطع نظر النہضہ کے حامی تیونس کی سڑکوں پر جشن مناتے دکھائی دیے۔ الغنوشی نے انتخابات کے بعد جاری کردہ اپنے بیان میں کہا، ’’یہ انتخابات ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں کہتیونس میں جمہوریت زندہ ہے۔‘‘
دوسری جانب سیکولر جماعت نداء نے انتخابی عمل مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے فیس بُک پیج پر جاری کردہ پیغام میں ان انتخابات میں بے قاعدگیوں کی شکایت بھی کی۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔