عرب دنیا: جدید ترین فیشن، پردے کے پیچھے
8 مئی 2013خلیجی عرب ممالک کی خواتین چند سال پہلے تک عوامی مقامات پر طویل سیاہ عبایا اور سر ڈھکنے کے لیے اسکارف کا استعمال کیا کرتی تھیں اور ثقافتی طور پر یہی واحد قابل قبول لباس ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب نئی نسل کے عبایا ڈیزائنرز نے اس روایتی لباس کو کپڑے اور ڈیزائن کے حوالے سے کچھ تبدیل کرنا شروع کیا ہے، یہاں تک کہ کچھ عبائیں انتہائی مہنگے موتیوں سے مزین ہوتی ہیں تاکہ عرب خواتین کے پاس انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش موجود ہو۔
بظاہر عبایا کی روایتی شکل میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، ابھی بھی اُس کا سیاہ رنگ ہوتا ہے، لمبی آستینیں ہوتی ہیں اور یہ ڈھیلا ڈھالا لباس اوپر سے لے کر نیچے تک جسم کو ڈھانپتا ھے۔ خلیجی عرب حکومتیں اور عرب ثقافت دونوں جنسوں کے لئے اس لباس کی حو صلہ افزائی کرتی ھے۔ مرد حضرات طویل سفید لباس پہنتے ھیں جبکہ کبھی کبھی اُن کی عباؤں کا رنگ خاکستری اور نیلا بھی ہوتا ہے۔
ڈیزائنرز نے البتہ عبایا میں کچھ اضا فوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو محسوس کر لیا ہے۔ آستینوں پر کشیدہ کاری، قیمتی موتیوں اور پتھروں کا جڑاؤ عبای کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔ مشہور یورپی ڈیزائنر لیبلز، ڈیور، نینا رکی اور البرٹا فیریتی نے خلیجی عرب خواتین کی مہنگی گلف مارکیٹ میں اپنی اپنی عبائیں متعارف کروا دی ہیں۔
اب تک سب سے مہنگی عبایا برطانوی ڈیزائنر ڈیبی ونگم نے بنائی ہے، جس کی قیمت17.7 ملین ڈالر بتائی جاتی ھے اور جسے مارچ میں دبئی میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ عبایا مہنگے ترین ہیرے جواہرات سے مزین تھی، جن میں سرخ ہیرے بھی شامل تھے، جوکہ نایاب اور مہنگے ترین تصور کیے جاتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں متحدہ عرب امارات اور بالخصوص دبئی عبایا کی صنعت کا خاص مرکز ہیں، جو اپنی عبائیں مشرق وسطٰی، شمالی افریقہ اور کچھ افریقی مسلم ممالک کو بھی برآمد کرتے ہیں۔ لیکن عرب ممالک میں انقلابی تحریکوں کے بعد سے متحدہ عرب امارات نے مصر، تیونس، شام اور لیبیا جیسے ممالک کو ویزے جاری کرنا کافی حد تک کم کر دیے ہیں۔
بنگلہ دیشی ڈیزائنر کلیم خان کا کہنا ہے کہ ویزے نہ ملنے کی وجہ سے عبایا کی فروخت میں اندازاً ستر فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ باقاعدہ خریداروں کو متحدہ عرب امارات کے ویزے نہیں مل رہے۔
(hm/aa(ap