عرب دنیا: طویل شیعہ سنّی جنگ کا خطرہ
16 جون 2014’’مسلمان انتہا پسندوں پر مشتمل قاتل گروہ ISIS کے دَس ہزار جنگجو مشرقِ وُسطیٰ کو للکار رہے ہیں اور یہ بات خوفناک حد تک تشویش کا باعث ہے۔ ’عراق اور شام میں اسلامی امارات‘ کے یہ دَس ہزار جنگجو دارالحکومت بغداد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ بغداد پر قبضہ کر کے ملکی وزير اعظم کو وہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور یوں عراق میں شیعہ حکمرانی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ قومیت پر مبنی ریاستوں کو ختم کر کے اُمت کے تصور کو نئی بنیادوں پر اُستوار کرتے ہوئے ایک ایسی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں، جہاں ہر چیز کے لیے شریعت کو ہی پیمانہ بنایا جائے گا۔
شام ہو یا عراق، زیادہ سے زیادہ لوگ جہاد کی حمایت میں اُٹھ رہے ہیں اور ISIS نامی یہ گروپ ابھی سے وسیع تر علاقوں پر بے رحمی کے ساتھ تسلط جما چکا ہے۔ ابو بکر البغدادی کی قیادت میں جمع سنّی جہادی صرف بغداد میں وزير اعظم نوری المالکی کو ہی چیلنج نہیں کر رہے بلکہ اُنہوں نے پورے مشرقِ وُسطیٰ میں ایک آگ سی لگا دی ہے۔ ایران اپنے عراقی شیعہ بھائیوں کی مدد کے لیے تیار ہے اور اس مقصد کے لیے اپنی اب تک کی تمام تر پالیسیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم از کم بیان بازی کی حد تک امریکا کے ساتھ مل کر بھی کوششیں کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر باراک اوباما ابھی اس سلسلے میں ہچکچا رہے ہیں کہ وہ مشکل میں آئے ہوئے عراقی وزير اعظم کی کیسے مدد کریں اور کریں بھی یا نہیں۔
ایران کے لیے شیعہ بھائیوں کی مدد کرنا ایک مسلمہ امر ہے، جیسا کہ وہ علوی شامی صدر بشار الاسد یا پھر لبنان میں شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی مدد کرتے ہوئے کر رہا ہے۔ تہران حکومت حزب اللہ، شام، عراق اور ایران کے شیعہ محور کو بچا کر علاقائی سیاسی مفادات اور یوں اپنے اثر و رسوخ کو محفوظ بنانا چاہتی ہے۔ ایرانیوں کے لیے شیعہ عراقی بھائیوں کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دینا ناقابل تصور ہے۔ اُن کے خیال میں ایسے حالات میں جہاد واجب ہو جاتا ہے۔
اُدھر شام میں، جہاں ہر دھڑا دوسرے سے برسرِ پیکار ہے، دو لاکھ اموات اور کئی ملین مہاجرین کے بعد یہ نظر آ رہا ہے کہ اسد اقتدار میں رہیں گے اور خانہ جنگی بھی جاری رہے گی۔ شمالی عراق میں کُرد اپنے پاؤں جما چکے ہیں اور وہ ISIS سے نہیں ڈرتے۔ دوسری طرف کردوں کی یہ نئی خود اعتمادی ترکی کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔ عشروں سے فلسطینی پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنے والا اُردن اب شامی پناہ گزینوں کے بوجھ تلے جھکا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب ہے، جو خطّے کی فکری اور روحانی قیادت کے سلسلے میں ایران کا سب سے بڑا حریف ہے۔ سعودی عرب خود بھی ایک مذہبی ریاست ہے، جو اپنے وہابی نظریات کے پرچار پر بھی بے پناہ پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ سعودی عرب ایک جانب جہادیوں سے خوفزدہ ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں تبلیغی مشنوں کی آڑ میں اس امید کے ساتھ جہادیوں کی مدد بھی کر رہا ہے کہ وہ کبھی سعودی شاہی خاندان کی مخالفت نہیں کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ISIS جن جن علاقوں میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتی ہے، اُن میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
ابو بکر البغدادی کو کھلے میدان میں شکست بھی ہو جائے تو بھی اِس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ جہادی نظريے کو شکست ہو گئی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہو گا کہ اس یلغار کو عارضی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ عراق میں بغداد پر قبضے کے لیے جاری لڑائی ایک ایسی نئی شیعہ سنی جنگ کا نقطہء آغاز ہے، جو آنے والے کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی بقا کو اب تک کے مقابلے میں اور بھی زیادہ خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ مغربی دنیا بہرحال خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔‘‘