متحدہ عرب امارات کی جانب سے بتایا گیا ہےکہ الامل(امید) نامی مشن جاپانی خلائی مرکز سے پندرہ جولائی کو روانہ کیا جائے گا۔ اس وقت اس مشن کی روانگی سے متعلق اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
تصویر: AFP/K. Sahib
اشتہار
اس مشن کو متحدہ عرب امارات کے لیےایک نئی جہت میں ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل یہ عرب ملک بلند و بالا عمارات اور میگا پروجیکٹس کے شعبوں میں غیرمعمولی طور پر ابھرا ہے۔
گزشتہ برس متحدہ عرب امارات نے اپنا پہلا خلانورد خلا میں بھیجا تھا۔ ابوظہبی حکومت کی خواہش ہے کہ ملک میں "سائنس سٹی" قائم کیا جائے، جو بالکل مریخ کے حالات کی نقل ہوگا۔ اماراتی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اب سے قریب ایک صدی بعد سن 2117 تک مریخ پر انسانی بستی کے قیام کا خواہاں ہے۔
اماراتی خلائی مشن کے پروجیکٹ مینیجر عمران شرف نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد سائنسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ خطے کے ثقافتی اور سائنسی اعتبار سے سنہرے دور کا احیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے عرب دنیا کسی دور میں علم و تحقیق کا مسکن ہوا کرتی تھی۔
تصویر: AFP/K. Sahib
اے ایف پی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے شرف نے کہا، "متحدہ عرب امارات عرب نوجوانوں کو ایک مضبوط پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ کبھی علم کی آماجگاہ تھے۔"
ان کا کہنا تھا، "بہت سے مذاہب اورمتنوع پس منظر کے افراد عرب دنیا میں ایک شناخت کے ساتھ رہا کرتے تھے جب کہ اب عرب دنیا کے کئی ممالک فرقہ وارانہ اور اقتصادی بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔"
شرف مزید کہتے ہیں، "اختلاف ایک طرف رکھیے۔ خطے کی تعمیر کاعزم کیجیے۔ آپ کی تاریخ شان دار ہے۔ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔"
اماراتی خلائی مشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر سارہ الامیری نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اس پروجیکٹ کے اثرات دور رس ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں، "یہ کوئی قلیل المدتی مشن نہیں بلکہ اصل میں یہ ایک جاری رہنے والا مشن ہے، جس سے حاصل ہونے والی معلومات کئی برسوں تک مفید ہوں گی۔ اس سے متحدہ عرب امارات کے علاوہ عالمی محققین بھی فائدہ اٹھائیں گے۔"
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
سارہ الامیری کا کہنا تھا کہ اس مشن کے ذریعے مریخ پر موسمیاتی تبدیلیوں کی تصاویر لی جائیں گی اور اس کے لیے تین طرح کے آلات بھیجے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس خلائی مشن میں "انفراریڈ سپیکٹرومیٹر" نصب ہے جو مریخ میں کرہ ہوائی کی نچلی سطح کی پیمائش کرے گا اور وہاں کی درجہ حرارت کا مطالعہ کرے گا۔
اس کے علاوہ ایک انتہائی جدید ترین کیمرہ بھی اس مشن میں موجود ہے، جو مریخ پر اوزن کی تہہ کی تصاویر بنائے گا، جب کہ الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی سپیکٹرومیٹر بھی اس مشن کا حصہ ہے، جس کے ذریعے مریخ کی سطح سے 43 کلومیٹر دور سے اس سیارے پر موجود آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ناپا جائے گا۔
الامیری نے بتایا کہ ان آلات کے ذریعے محققین دن کے تمام اوقات میں اس سرخ سیارے کا مشاہدہ کرسکیں گے۔
الامیری نے پانی میں موجود عناصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، "ہم اس مشن کے ذریعے بہتر انداز سے جان پائیں گے کہ کرہء ہوائی کھونے کی وجہ کیا ہے ؟ اور کیا مریخ کا موسمی نظام اس سیارے پر آکسیجن اور ہائیڈروجن کے کم ہونے کی وجہ ہو سکتا ہے؟"
یہ عرب مشن پندرہ جولائی کو جاپانی خلائی مرکز سے روانہ ہو گا جب کہ اس کی واپسی فروری 2021 میں ہوگی۔
اس مشن کے پروجیکٹ مینیجر شرف نے کہا کہ اگر جولائی کے وسط اور اگست کے آغاز کے درمیانی عرصے میں کسی وجہ سے اس مشن کی روانگی نہ ہو پائی، تو پھر ایسے موقع کے لیے دو برس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ مشن ممکنہ طور پر وقت پر روانہ ہو جائے گا۔