متحدہ عرب امارات کا مریخ کے لیے پہلا خلائی مشن پیر کی صبح جاپانی خلائی اڈے تانیگاشیما سے روانہ ہوگیا ہے جو سات ماہ میں تقریبا ً50 کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کر کے مریخ پر پہنچے گا۔
اشتہار
عرب دنیا کا پہلا مریخ خلائی مشن روانہ
متحدہ عرب امارات کا مریخ کے لیے پہلا خلائی مشن پیر کی صبح جاپانی خلائی اڈے تانیگاشیما سے روانہ ہوگیا ہے جو سات ماہ میں تقریبا ً50 کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کر کے مریخ پر پہنچے گا۔
متحدہ عرب امارت نے مریخ کے لیے جو اپنی پہلی روبوٹک خلائی گاڑی روانہ کی ہے اس کا نام 'ہوپ' یعنی امید ہے اور عرب دنیا کی جانب سے اس طرح کا یہ پہلا مشن ہے۔ اس کا مقصد مریخ پر پہنچ کر اس کی آب و ہوا اور ماحولیات کے بارے میں معلومات جمع کرنا ہے۔
توقع ہے کہ یہ سیٹلائٹ سات ماہ کے طویل سفر کے بعد فروری 2021 تک سیارہ سرخ پر لینڈ کریگی اور تقریبا ًدو برس تک مریخ کا چکر لگا کر مریخ سے متعلق نئی معلومات مہیا کرے گی۔ اگلے برس متحدہ عرب امارات کے بطور ایک ملک کے قیام کے پچاس برس مکمل ہو جائیں گے اور مریخ پر اس خلائی جہاز کی لینڈنگ ملک کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر متوقع ہے۔
اس مصنوعی سیارچہ کا وزن ایک اعشاریہ تین ٹن ہے جسے جاپان کے ایک دور دراز خلائی اڈے تانیگاشیما پر ایچ ٹو اے راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے۔ بغیر انسانوں کے اس مصنوعی سیارے میں ایسے آلات نصب ہیں کہ مریخ کی بالائی سطح کا مطالعہ کرنے اور اس کی آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ یہ مشن مختلف موسم کے دوران سیارے کے ماحولیات سے متعلق پہلی مکمل تصویر فراہم کرے گا۔'ہوپ' نامی اس سیٹلائٹ کو پہلے 14 جولائی کے دن جاپانی راکٹ کے ذریعے خلا میں روانہ کیا جا نا تھا تاہم خراب موسم کے سبب اس کی روانگی دو بار ملتوی ہوئی۔
متحدہ عرب امارات نے مریخ کے لیے اپنے اس پہلے مشن کا اعلان 2014 میں کیا تھا۔ ملک کی کوشش یہ ہے کہ وہ خلائی پروگرام اور سائنس کے شعبے میں ترقی کرکے تیل پر اپنا انحصار کم کرے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت حاصل کر کے نئے مواقع کی راہ ہموار کرسکے۔
متحدہ عرب امارات نے آئندہ صدی کے اوائل یعنی 2117 تک مریخ پر پہلی انسانی بستی بسانے کا بھی عزم کر رکھا ہے۔ ملک میں مریخ مشن کے سربراہ عمر شراف نے ٹویٹر پر اپنا ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ، امارات کا مریخ مشن عرب دنیا کے نوجوانوں کے لیے امید کا پیغام ہے۔اگر متحدہ عرب امارت جیسا ایک نیا ملک پچاس برس سے کم عمر میں مریخ پر پہنچنے کی اہلیت رکھتا ہے، تو ہم ایک خطے کی حیثیت سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔''
عرب دنیا کے پاس خلائی جہاز یا پھر سیٹلائٹ ڈیزائن اور اسے تیار کرنے کا بہت کم تجربہ ہے تاہم اس کے باوجود متحد عرب امارات امریکی ماہرین کی مدد سے گزشتہ چند برسوں کی سخت محنت سے جدید طرز کی ایک سیٹلائٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اگر یہ مشن کامیاب رہا اور سیٹلائٹ مریخ تک پہنچی تو یہ قوی امید ہے کہ اس سے نئی سائنسی حقائق تک رسائی حاصل ہوگی اور سیارہ مریخ سے متعلق نئی معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
حالانکہ ملک نے اس سے پہلے مشاہدے کے لیے تین مصنوعی سیارے لانچ کیے تھے جو ناکام رہے اور وہ کرہ ارض کے مدار سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔
ص ز / ج ا (روئٹرز، اے پی)
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔