عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے، اسرائیلی وزیراعظم
13 فروری 2019
اسرائیل نے امید ظاہر کی ہے کہ پولینڈ اور امریکا کی میزبانی میں وارسا میں منعقد مشرقِ وسطیٰ کانفرنس اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات میں بہتری میں کلیدی کردار ادار کر سکتی ہے۔
اشتہار
اسرائیلی وزیراعظم نے بدھ کے روز پہلی بار عوامی سطح پر کہا کہ ان کے دور حکومت میں اسرائیل اور متعدد خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ پولینڈ میں منعقد ہونے والی مشرقِ وسطیٰ کانفرنس ان تعلقات میں مزید بہتری کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
متعدد عرب ریاستوں کے اعلیٰ عہدیدار پولینڈ میں منعقدہ اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دیے جانے کی وجہ سے اس کانفرنس کو ’ایران مخالف اتحاد‘ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ عرب ریاستیں اس کانفرنس میں فلسطینیوں کے لیے کوئی رعایت مانگتی ہیں، یا اس موضوع کو صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔
امریکا اور پولینڈ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع ’مشرقی وسطیٰ میں سلامتی اور امن‘ ہے، تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق بظاہر یہ کانفرنس خطے میں ایران کو تنہا کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔ ایران آج بدھ کے روز سے شروع ہونے والی اس کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے پہلے ہی اسے ’ایران مخالف‘ قرار دے چکا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ روس نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی، جب کہ یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ فیڈریکا موگرینی بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق اس کانفرنس میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے تمام امریکی اتحادی ممالک شریک ہو رہے ہیں جب کہ پولینڈ کا موقف ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے اشتراکِ عمل میں اضافہ ہوا گا، جو روس کے خلاف تحفظ میں بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کانفرنس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ہو سکتا ہے، جو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں مصروف ہے۔ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور مختلف عرب ریاستوں کے درمیان اس سطح کے رابطے کو اسرائیلی حکومت کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔