’عسکریت پسندوں کو قتل کرنے کی بجائے افغانستان دھکیل دیں‘
عاطف توقیر
24 فروری 2018
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک جیسے عسکریت پسند گروپوں کے جنگجوؤں کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی بجائے انہیں واپس افغانستان کی جانب دھکیل دینا چاہیے۔
اشتہار
جمعے کے روز ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ اسے حقانی نیٹ ورک یا اس طرز کے دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ارکان کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی بجائے انہیں واپس افغانستان کی جانب دھکیل دینا چاہیے۔ اس عہدیدار کے مطابق افغان سرزمین پر امریکی اور افغان فورسز ان عسکریت پسندوں سے نمٹ سکتی ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان اگر ان عسکریت پسندوں کو افغانستان کی جانب دھکیل دیتا ہے، تو افغانستان اور امریکا کی فورسز ان کے خلاف بڑی کارروائیاں کر سکتی ہیں۔ امریکا نہیں چاہتا کہ افغانستان کی سرزمین ایک مرتبہ پھر مغربی ممالک میں گیارہ ستمبر کی طرز کے حملوں کے لیے استعمال ہو۔
روئٹرز کےمطابق امریکی حکومت پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر ان عسکریت پسندوں کے محفوظ اور مضبوط ٹھکانوں کا خاتمہ کرے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں سے افغانستان میں دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں۔
جنوری کی چار تاریخ کو امریکا نے پاکستان کو سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی کچھ امداد معطل کر دی تھی اور کہا تھا کہ یہ امداد اس وقت بحال کی جائے گی، جب پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کی معاونت ترک کرے گا۔
روئٹرز کے مطابق امریکی امداد کی معطلی سے پاکستان کے لیے قریب دو ارب ڈالر تک کی مدد رک سکتی ہے۔ روئٹرز سے بات چیت کرنے والے اس اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ اب تک اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے کوئی مربوط اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
ہر طرف آنسو اور دعائیں
پاکستان میں گزشتہ روز باچاخان یونیورسٹی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے اور اکیس افراد کی ہلاکتوں کے تناظر میں آج ایک روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔ آج ملک بھر کی تمام حکومتی عمارتوں پر پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔
تصویر: Reuters/M. Raza
اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چارسدہ یونیورسٹی حملے کے تناظر میں اندرون اور بیرون ملک تمام پاکستانی سرکاری عمارتوں کے پرچم آج سرنگوں رکھے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
یہ حملہ سن دو ہزار چار میں پشاور اسکول حملے سے ملتا جلتا تھا، جس کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دیتے ہوئے آپریشن شروع کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
زیادہ تر ہلاک ہونے والوں کی تدفین گزشتہ شام ہی اسلامی قوانین کے مطابق کر دی گئی تھی جبکہ سید حامد حسین کی تدفین ان کے آبائی علاقے صوابی میں کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی حملے کو جنگی جرم قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ اس حملے کی اقوام متحدہ اور بھارت سمیت دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر وہ نوجوان اسٹوڈنٹس شامل ہیں، جو حملے کے وقت ہاسٹل میں موجود تھے جبکہ چاروں حملہ آوروں کو بھی وہاں ہی ہلاک کیا گیا
تصویر: Reuters/F. Aziz
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ’’خاص بری بات یہ ہے کہ دہشت گرد پاکستانی تعلیمی اداروں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
ہاسٹل کا اندرونی فرنیچر خون سے لت پت تھا جبکہ ایک کمرے کی دیوار پر یہ لکھا ہوا تھا، ’’ہیروز نوجوانی میں مرتے ہیں‘‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Qureshi
گزشتہ روز ہلاک ہونے والوں میں کمیسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر سید حامد حسین بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے خوفزدہ طالب علموں کو بچانے کے لیے اپنے پستول سے حملہ آوروں کے خلاف فائرنگ کرنا شروع کر دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
سوئٹزرلینڈ کے ڈیوس فورم میں شریک پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ ’’ذاتی طور پر‘‘ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔
تصویر: Reuters/M. Raza
9 تصاویر1 | 9
اس امریکی عہدیدار کے مطابق، ’’میرے خیال میں پاکستان اب خود کو مضبوط نہیں بلکہ دباؤ میں محسوس کر رہا ہے۔‘‘ امریکی عہدیدار نے ان چہ مگوئیوں کو رد کر دیا کہ پاکستان پر ڈالا جانے والا یہ دباؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے اور پاکستان اپنے ردعمل میں کوئی دوسرے ’چھوٹے اور ٹیکٹیکل قدم‘ بھی اٹھا سکتا ہے۔
اس عہیدار نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے امریکی مطالبات پر کیے جانے والے اقدامات کے لیے امریکا نے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا، تاہم پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کو اپنے سرحدی علاقوں سے نکالے۔