کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کی مبینہ ری گروپنگ اور مختلف علاقوں میں واپسی کی خبروں نے کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اشتہار
ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی واپسی سے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ سیاسی جماعتیں ٹی ٹی پی سے مزاکرات کی حامی بھی نظر آتی ہیں۔
واضح رہے کہ اس موجودگی پر کل قومی اسمبلی میں بھی کچھ اراکین نے تشویش کا اظہار کیا اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں لوگ ان کی موجودگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے۔ خواجہ آصف نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بگڑ رہی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ یہ صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔
ملک کے سوشل میڈیا میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ عسکریت پسند لوگوں سے بھتا وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے پر حملے کو بھی اسی بھتے کی کہانی سے جوڑا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات پر پاکستان کے سیکولر اور پختون قوم پرست حلقے کچھ وقت سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان سے علماء اور قبائلی عمائدین کے وفود کابل بھی گئے تھے، جہاں انہوں نے ٹی تی پی کے قائدین سے ملاقاتیں کیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان مذاکرات میں معاونت افغان طالبان کر رہے ہیں۔ ان مزاکرات میں ٹی ٹی پی کا ایک اہم مطالبہ سابقہ فاٹا کی حیثیت کو بحال کرانے کا ہے، جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن ان کے مطالبات سے زیادہ اب ان کی موجودگی کئی حلقوں میں زیر بحث ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کی ایک بار پھر موجودگی ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم حکومت یہ بات واضح کر چکی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوگا جو خلاف آئین ہو۔
حکومت نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی گروپ کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی مسلح گروپ کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
اشتہار
’عوام خوف میں مبتلا ہیں‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمد کی خبروں نے عوام کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے لوگوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ایک بار پھر پختون بیلٹ میں آگ و خون کا دریا گرم کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار پھر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا اور طالبان لوگوں کو کو ٹارگٹ کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر سید عالم محسود کے مطابق انہیں بتایا گیا تھا کہ ان لوگوں کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اب سوات مالاکنڈ اور دوسرے علاقوں میں انہیں واپس لایا جارہا ہے۔
سخت کارروائی ہونی چاہیے
کئی ناقدین کا خیال ہے کی ماضی میں بھی حکومتوں نے طالبان سے مختلف معاہدے کر کے انہیں مضبوط ہونے کا موقع دیا، جس کے بعد انہوں نے ریاستی رٹ کو چیلنج کیا اور ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا۔ ملک کو ان کی عسکریت پسندی کی وجہ سے سخت مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا، جس کا تخمیہ سینکڑوں ڈالرز میں ہے۔
سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ اگر ان کے خلاف بر وقت کارروائی نہیں کی گئی تو حالات سوات جیسے ہوجائیں گے۔ ''ہمارا مطالبہ ہے کہ ان سے مزاکرات بند کئے جائیں۔ ان کے کلاف فوری کارروائی کی جائے ورنہ وقت گزر جائے گا اور اس کا نقصان عوام کو ہوگا۔‘‘
طالبان ہمارے علاقوں میں آچکے ہیں
واضح رہے کہ طالبان عسکریت پسندی کے حوالے سے خیبرپختونخواہ اور سابقہ قبائلی علاقوں کے تقریبا تمام حصے متاثر ہوئے تھے لیکن سب سے زیادہ مالاکنڈ ڈویژن متاثر ہوا تھا، جہاں طالبان نے نہ صرف ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا بلکہ وہاں پر ایک متوازی حکومت بھی قائم کر لی تھی۔ دوہزار آٹھ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ان سے معاہدہ کیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا اور وہاں آپریشن کیا گیا۔
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Taraqai
15 تصاویر1 | 15
سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' طالبان ہمارے پہاڑی علاقوں میں آچکے ہیں۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور انہیں زخمی بھی کیا۔‘‘
اس سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ طالبان کہتے ہیں کہ ان کے بڑوں کے مذاکرات حکومت پاکستان سے ہو رہے ہیں اور ان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں چلے جائیں اور جا کر اپنے گھروں پر رہیں۔ اس سیاسی کارکن نے دعویٰ کیا کہ جب طالبان سے کہا گیا کہ وہ پہاڑوں کے بجائے اپنے گھروں میں جاکر رہیں، تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
رویہ بدلا ہوا ہے
اس سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ فی الحال طالبان عسکریت پسندوں کا، جو سوات میں آئے ہیں، رویہ بدلا ہوا ہے۔ ''وہ پولیس اور فوج کو اپنی پولیس اور فوج کہہ رہے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں نے ابھی تک عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ وہ اپنے پہاڑی علاقوں تک محدود ہیں۔‘‘
خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں طالبان کی موجودگی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ سوات میں 17 اگست کو ایک قومی جرگہ ہو رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے جرگے منعقد کئے جارہے ہیں۔
مزاکرات ہونے چاہیے
تاہم کچھ سیاسی جماعتیں ٹی ٹی پی سے مزاکرات کی حامی بھی ہیں۔ جمیعت علما اسلام کے رہنما اور مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں عسکریت پسند تنظیموں سے مزاکرات ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ نے افغان طالبان سے مزاکرات کیے۔ برطانیہ نے آئرش ریپبلیکن آرمی سے مزاکرات کیے۔ تو ٹی ٹی پی سے بھی مزاکرات ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ آئین میں دی جانی والی حدود کے اندر ہونے چاہیے۔‘‘