عسکریت پسندی کے خلاف کريک ڈاؤن مثبت پيش رفت ہے، تجزيہ کار
عبدالستار، اسلام آباد
9 اپریل 2019
ممبئی حملے کے ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کو چیلنج کيے جانے کو کئی حلقوں ميں مثبت قرار ديا جا رہا ہے۔ تجزيہ کاروں کے خیال میں یہ پيش رفت ثبوت ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عزم رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
اشتہار
ذکی الرحمن لکھوی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کالعدم تنظيم جماعت الدعوہ اور اس کے عسکری ونگ لشکرِ طیبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ انہیں ممبئی حملوں کا ایک اہم منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ لکھوی کو دسمبر سن 2008 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2014ء میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے خلاف درخواست وفاتی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جمع کرائی تھی ، جس کی آج بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالتی سماعت کے بعد متعلقہ جج نے حکومت سے مقدمے کا سارا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔
تجزيہ کاروں کے خیال میں جماعت الدعوہ اور لشکرِ طیبہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہی ہیں اور پاکستانی طالبان کے بر عکس اس جماعت نے بطور تنظیم، کبھی پاکستان کے اندر کوئی عسکریت پسندانہ کارروائی نہیں کی۔ اسی ليے ماضی میں حکومتوں نے ان تنظیموں کے خلاف ’مصنوعی‘ کارروائیاں کيں تاہم کئی حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اب ان کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے۔ سابق سینیٹر اور مسلم لیگ ن کے رہنما کرنل ریٹائرڈ طاہر مشہدی کے خیال میں حکومتی اقدام اس کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔’’میرے خیال میں لشکر طیبہ ہو یا جماعت الدعوہ، ہمیں یہ دیکھے بغیر کہ تنظیم کون سی ہے، تمام جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہیں۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ حالاں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں لیکن ان جیسی تنظیموں کی وجہ سے ہمارے دشمن ممالک پاکستان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑتے ہیں۔‘‘
ان کے خیال میں پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بھی ہے اور بھارتی وزیرِ اعظم مودی بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’’ایسے میں ہمیں اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان تنظیموں سے جان چھڑانی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی سازشیں کر رہی ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم پر بین الاقوامی دباؤ بہت ہے۔ لیکن ہمیں ان تنظیموں سے جان چھڑانے کے ليے دباؤ نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
ذکی الرحمن لکھویتصویر: Reuters/A. Arqam Naqash
لیکن ناقدین کے خیال میں پاکستان نے یہ کارروائی صرف بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے کی ہے اور ایک بار یہ دباؤ ختم ہوا، تو یہ تنظیمیں دوبارہ سے فعال ہوجائیں گی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ مہدی حسن کے خیال میں کیونکہ پاکستان میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں بہت طاقت ور ہیں، ایسے میں ان جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں بہت مشکل ہیں۔ ’’پہلے بھی حکومت نے مختلف تنظیموں پر پابندیاں لگائی تھیں لیکن انہوں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کر دیا۔ اب بھی بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف حقیقی کارروائی نہیں ہوگی۔‘‘
حکمران جماعت پی ٹی آئی دباؤ کے اس تاثر کو رد کرتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں مصنوعی نہیں ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم اپنے مفادات کے تحت ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں بین الاقوامی برادی کی کچھ شکایات جائز ہیں اور کچھ وہ بھارت کے کہنے پر لگاتی ہے۔ تو جو جائز شکایات ہیں ہم انہیں سن رہے ہیں۔ اس میں دباؤ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔‘‘
جماعت الدعوہ کے مرکز پنجاب میں کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت واقعی ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہی ہے ۔ پولیس کے ایک ذرائع نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جماعت الدعوہ کے کئی لوگ انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں تک کے ان کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے بھی کئی عہدیداروں نے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ اب غیر سیاسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ تو میرے خیال میں تو ان کے خلاف کریک ڈاؤن حقیقی ہے اور لکھوی کے خلاف حکومتی اپیل اس بات کا اشارہ ہے کہ ان پر مزید سخت وقت آئے گا اور انہیں کوئی رعایت نہیں ملے گی۔‘‘
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔