1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکریت پسندی کے خلاف کريک ڈاؤن مثبت پيش رفت ہے، تجزيہ کار

عبدالستار، اسلام آباد
9 اپریل 2019

ممبئی حملے کے ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کو چیلنج کيے جانے کو کئی حلقوں ميں مثبت قرار ديا جا رہا ہے۔ تجزيہ کاروں کے خیال میں یہ پيش رفت ثبوت ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عزم رکھتا ہے۔

Pakistan Bombenanschlag auf eine Moschee in Shikarpur Protest 30.01.2015
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

ذکی الرحمن لکھوی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کالعدم تنظيم جماعت الدعوہ اور اس کے عسکری ونگ لشکرِ طیبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ انہیں ممبئی حملوں کا ایک اہم منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ لکھوی کو دسمبر سن 2008 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2014ء میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے خلاف درخواست وفاتی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جمع کرائی تھی ، جس کی آج بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالتی سماعت کے بعد متعلقہ جج نے حکومت سے مقدمے کا سارا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

تجزيہ کاروں کے خیال میں جماعت الدعوہ اور لشکرِ طیبہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہی ہیں اور پاکستانی طالبان کے بر عکس اس جماعت نے بطور تنظیم، کبھی پاکستان کے اندر کوئی عسکریت پسندانہ کارروائی نہیں کی۔ اسی ليے ماضی میں حکومتوں نے ان تنظیموں کے خلاف ’مصنوعی‘ کارروائیاں کيں تاہم کئی حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اب ان کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے۔ سابق سینیٹر اور مسلم لیگ ن کے رہنما کرنل ریٹائرڈ طاہر مشہدی کے خیال میں حکومتی اقدام اس کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔’’میرے خیال میں لشکر طیبہ ہو یا جماعت الدعوہ، ہمیں یہ دیکھے بغیر کہ تنظیم کون سی ہے، تمام جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہیں۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ حالاں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں لیکن ان جیسی تنظیموں کی وجہ سے ہمارے دشمن ممالک پاکستان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑتے ہیں۔‘‘

ان کے خیال میں پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بھی ہے اور بھارتی وزیرِ اعظم مودی بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’’ایسے میں ہمیں اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان تنظیموں سے جان چھڑانی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی سازشیں کر رہی ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم پر بین الاقوامی دباؤ بہت ہے۔ لیکن ہمیں ان تنظیموں سے جان چھڑانے کے ليے دباؤ نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘

ذکی الرحمن لکھویتصویر: Reuters/A. Arqam Naqash

لیکن ناقدین کے خیال میں پاکستان نے یہ کارروائی صرف بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے کی ہے اور ایک بار یہ دباؤ ختم ہوا، تو یہ تنظیمیں دوبارہ سے فعال ہوجائیں گی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ مہدی حسن کے خیال میں کیونکہ پاکستان میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں بہت طاقت ور ہیں، ایسے میں ان جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں بہت مشکل ہیں۔ ’’پہلے بھی حکومت نے مختلف تنظیموں پر پابندیاں لگائی تھیں لیکن انہوں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کر دیا۔ اب بھی بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف حقیقی کارروائی نہیں ہوگی۔‘‘

حکمران جماعت پی ٹی آئی دباؤ کے اس تاثر کو رد کرتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں مصنوعی نہیں ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم اپنے مفادات کے تحت ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں بین الاقوامی برادی کی کچھ شکایات جائز ہیں اور کچھ وہ بھارت کے کہنے پر لگاتی ہے۔ تو جو جائز شکایات ہیں ہم انہیں سن رہے ہیں۔ اس میں دباؤ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔‘‘


جماعت الدعوہ کے مرکز پنجاب میں کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت واقعی ان تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہی ہے ۔ پولیس کے ایک ذرائع نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جماعت الدعوہ کے کئی لوگ انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں تک کے ان کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے بھی کئی عہدیداروں نے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ اب غیر سیاسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ تو میرے خیال میں تو ان کے خلاف کریک ڈاؤن حقیقی ہے اور لکھوی کے خلاف حکومتی اپیل اس بات کا اشارہ ہے کہ ان پر مزید سخت وقت آئے گا اور انہیں کوئی رعایت نہیں ملے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں