عسکریت پسند کمانڈر کی امن معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی
12 نومبر 2011حافظ گل بہادر سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج پر حملے نہ کرنے کا ایک غیر رسمی معاہدہ کر رکھا ہے اور ان کے عسکریت پسند محض سرحد پار افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔ گل بہادر اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے سب سے فعال سمجھے جانے والے حقانی نیٹ ورک کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں تقسیم کیے گئے ایک تحریری بیان میں انہوں نے اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔
بیان کے مطابق، ’’ عام لوگوں کے مسائل کی وجہ سے ہم خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے مگر اب حکومت بھی غیر ملکیوں کو خوش کرنے کے لیے ہمارے لوگوں کو دبا رہی ہے۔‘‘ کمانڈر گل بہادر نے پاکستانی فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ شمالی وزیرستان کے شہریوں پر مارٹر گولے داغ رہی ہے اور ایک ہسپتال سمیت دیگر عمارات کو بھی تباہ کر چکی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی فوجی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا کہ عسکریت پسند عوامی مقامات سے فوج پر راکٹ داغتے ہیں۔
عسکریت پسند کمانڈر گل بہادر نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت سے بات چیت کے لیے تشکیل دیا گیا جرگہ تحلیل کر دیا گیا ہے اور اب اگر اسلام آباد حکومت نے کوئی جارحانہ اقدام اٹھایا تو ان کے لیے بھی برداشت سے کام لینا مشکل ہوجائے گا۔ اس جرگے کے سربراہان مولانا گل رمضان اور حافظ نور اللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق حافظ گل بہادر کی کمان میں ہزاروں کی تعداد میں جنگوو ہیں۔ روئٹرز کے مطابق پاکستان فوج کے ساتھ ان کا 2007ء میں غیر رسمی امن معاہدہ طے پایا تھا۔
پاکستان کو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے امریکی دباؤ کا سامنا ہے۔ امریکہ کی فوجی قیادت عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا بازو قرار دے چکی ہے۔ پاکستانی قیادت عوامی سطح پر ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتی ہے۔ مگر مبصرین کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ ڈرون حملوں میں القاعدہ اور طالبان کی اعلیٰ قیادت کی ہلاکتیں پاکستانی آئی ایس آئی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس