1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

عشروں سے منتظر آنکھیں اپنے گاؤں دیکھنا چاہتی ہیں

12 اگست 2022

تقریباﹰ ڈیڑھ برس پہلے ارادہ باندھا تھا کہ ان بزرگوں کی یادوں کو ریکارڈ کیا جائے، جنہوں نے سن 1947 کے بٹوارے اور المناک ہجرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے جسموں اور روح پر جھیلا ہو۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

تقسیم کی ان کہی کہانیوں کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اب تک پاکپتن اور بہاول نگر (پنجاب، پاکستان) کے مختلف علاقوں میں بسنے والے تقریبا ایک سو بزرگوں کی یادوں کو ہم ''پارٹیشن ڈائری‘‘  نام کے یوٹیوب چینل پر محفوظ کر چکے ہیں۔

یہ بزرگ مغربی پنجاب (انڈیا) کے فیروز پور، فاضلکا، ابھور، گنگا نگر، مکتسر، موگا، ملوٹ، ہوشیار پور، جالندھر، ڈب والی، رانیہ، سرسہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ 75 سال گزر جانے کے باوجود سن سنتالیس کے واقعات ان کے دلوں پر نقش ہیں۔ وہ اپنے گاؤں کو یاد کرتے ہیں۔ وہاں بسنے والے لوگ، مسجد، گردوارے، قبرستان، میلے ٹھیلے، کھیت کھلیان، نہریں، دریا، کھیل تماشے، ریل گاڑی کی کوک، سڑکیں، گلیاں، سکول، مدرسے، رسم و رواج سب ان کی یادوں میں زندہ ہیں۔

یہ بزرگ سن سنتالیس میں ہجرت کے وقت دس پندرہ سال کے بچے تھے۔ اب وہ بچے بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔  ہم گفتگو کے دوران ان بوڑھے بچوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کو اپنا آبائی گاوں یاد آتا ہے، جس میں ان کا بچپن گزرا اور کیا وہ اپنا گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں؟

اس سوال پر بزرگ کیا جواب دیتے ہیں؟ وہ ہم آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

کچھ بزرگ یہ سوال سن کر خاموش ہو جاتے ہیں اور کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ گویا یہ سوال ان کے لیے انوکھا اور اجنبی ہو۔ ایسا لگتا ہے، جیسے عمر بھر ان سے یہ سوال کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ پہلی بار سوال سامنے پا کر عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات، بارڈر اور ویزے کی سخت پابندیوں کے پیش نظر ان کو سرحد پار جا کر اپنا گاؤں دیکھنا ناممکن لگتا ہے۔ کئی بزرگ کہتے ہیں، ''پتر! ہن اوتھے کون جان دیندا اے سانوں؟‘‘

کچھ افراد عمر بھر کی حسرت لیے ناامیدی سے کہتے ہیں، ''ہن عمر لنگھ گئی اے، ہن ایہہ سفر کتھوں ہونا اے۔‘‘ آنکھوں میں پوری نا ہونی والی خواہش کے آنسو لیے وہ مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے اسٹیشن سے گاڑی نکل گئی ہو اور منزل پہ پہنچنے کی آس ڈوب گئی ہو۔ جیسے کسے بچے کے ہاتھ سے پتنگ کی ڈور چھوٹ گئی ہو اور وہ اداس کھڑا رہ گیا ہو۔

تقریبا سبھی بزرگ اپنے گاوں کو دیکھنے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنا وطن، جنم بھومی کبھی نہیں بھولتا۔ دیکھنے کو من بھی کرتا ہے لیکن انڈیا جا کر اپنی گلیاں دیکھنا ان کے لیے ایک خواب وخیال ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔

ہم اب تک جتنے عمر رسیدہ لوگوں سے ملے ہیں، ان میں کوئی ایک بھی پلٹ کر اپنا گاؤں یا شہر دیکھنے بھارت نہیں جا سکا۔  اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بڑی وجہ شاید دونوں ملکوں کے سرد تعلقات اور سرحدوں کی پابندیاں ہیں۔ گلزار صاحب نے یہی تو کہا ہے

پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے

کوئی سرحد نا انہیں روکے

سرحدیں انسانوں کے لیے ہیں

سوچو، تم نے اور میں نے

کیا پایا انساں ہو کر

یہ بوڑھے افراد کہتے ہیں کہ وہ اپنے خوابوں اور خیالوں میں اپنے گاؤں، اپنے گھر اور گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ سن سنتالیس کے گرم موسم میں ان کو اپنا گھر، گاؤں اور سب کچھ چھوڑنا پڑا لیکن وہ گھر اور گاؤں ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے بس گیا۔ پل پل یاد کرتے ہیں۔ کئی بزرگ بتاتے ہیں کہ انڈین ریڈیو اسٹیشن پہ فرمائشی گیتوں کے پروگرام میں کبھی ان کے گاؤں کا نام آ جاتا تو دل زور سے دھڑکنے لگتا۔ اپنی آبائی بستی کا نام سن کر کتنا اچھا لگتا تھا۔ پھر فرمائشی گیت کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا تھا۔

گورنمنٹ فریدیہ کالج پاکپتن (پاکستان) میں ہمارے کولیگ، انگریزی کے استاد پروفیسر ثاقب نوید بتاتے ہیں کہ ان کے والد جوگے وال (انڈین پنجاب) سے ہجرت کر کے پاکپتن آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی گردن پر زخم کا بڑا نشان بٹوارے ہی کی دین تھا۔ ایک بار ٹی وی پر انڈیا پاکستان کا کبڈی کا میچ دیکھ رہے تھے۔ کمنٹری سے پتا چلا کہ انڈین ٹیم کا ایک کھلاڑی جوگے وال گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ پورا میچ وہ اپنے گاؤں کے کھلاڑی کو سپورٹ کرتے رہے۔ اپنے گاؤں سے محبت کی یہ خوبصورت مثال تھی۔

پاکپتن (پاکستان) کے قریب چک 27 ایس پی میں رہنے والے بابا محمد عارف ڈھڈی اپنے خاندان کے ساتھ مکتسر (انڈیا) کے گاؤں بدھائی سے اٹھ کر آئے تھے۔ محمد عارف بتاتے ہیں کہ ان کے والد جان محمد، تایا، چچا سب خاندان والے بدھائی کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ آخری سانس تک پر امید لہجے میں یہی کہتے رہے کہ ایک دن ہم اپنے گاؤں بدھائی لوٹ جائیں گے۔ ان بزرگوں کی امیدیں دم توڑ گئیں اور وہ خود بھی جہانِ عدم کے راہی ہوئے مگر اپنے گاؤں  کبھی نہیں جا سکے۔

بابا جہان خان منچن آباد  (ضلع بہاول نگر، پاکستان) کے چھوٹے سے گاؤں ادلانہ میں رہتے ہیں۔ عمر نوے سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ بچپن کے پندرہ برس فرید سر ( جو اب کیسری سنگھ پور ہے، گنگا نگر، انڈیا) میں گزارے کہ سن سنتالیس آ پہنچا۔ فرید سر چھوڑنا پڑا۔ بوڑھی آنکھوں میں آنسو بھرے بتاتے ہیں کہ ان کے دادا، ماں، ماموں، بڑی بہن، تائی اور دیگر عزیزوں کی قبریں بھی فرید سر کے قبرستان میں تھیں۔ اسی مٹی میں پلے بڑھے اور جیئے تھے اور خاک اوڑھ کر وہیں سو گئے تھے۔

 بابا جہان خان نے بتایا کہ سات بھائیوں اور دو بہنوں میں وہ اکیلے زندہ ہیں۔ سب اپنے گاؤں کو یاد کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بابا جہان خان کی یادداشت بہت مضبوط ہے لیکن آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ چکی ہے۔ آہ بھر کر کہا، ''ایک بار ان آنکھوں سے فرید سر کو دیکھ لیتا۔ بس خدا سے یہی مانگتا ہوں اور کچھ نہیں۔‘‘

بابا جہان خان کے سب بہن بھائی، والد وزیر خان، چچا، تائے سب مر چکے ہیں۔ ان کی آنکھوں کا نور بھی دھیرے دھیرے بجھ رہا ہے۔ جنم بھومی کو ایک بار دیکھنے کی امید اب بھی ان کے من میں ٹمٹما رہی ہے۔ ان کی لرزتی آواز بتا رہی تھی کہ ان کی آس کا یہ دیا بھی کچھ دیر میں بجھا ہی چاہتا ہے۔

بابا محمد بوٹا پاکپتن (پنجاب، پاکستان) کے قریب کلیانہ میں رہتے ہیں۔ ان کو تقسیم کے وقت اپنی آبائی بستی چینا (جیتو منڈی، انڈیا) چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ جان کے لالے جو پڑ گئے تھے۔ چینا پہ ایک دم سے حملہ ہو گیا تھا اور بہت سارے مسلمان مارے گئے۔ محمد بوٹا کے عزیز رشتہ دار بھی مارے گئے اور کچھ ہمیشہ کے لیے لا پتا ہو گئے۔ صرف پانچ لوگ، محمد بوٹا، ان کے والد، تایا اور تایا کے دو بیٹے جان بچا کر پاکستان پہنچے تھے۔

ان کی یادوں کی ویڈیو یوٹیوب پہ اپلوڈ کی تو پیغام آیا کہ ان کے چچا زاد خوشی محمد اس حملے میں بچ گئے تھے۔ اب ان کا خاندان چینا کے پڑوسی گاؤں ڈیلیاں والی میں آباد ہے۔ بابا محمد بوٹا کو پچھہتر سال بعد معلوم ہوا کہ ان کے چچا کے بیٹے زندہ تھے۔ بابا بوٹا بوجھل دل سے کہتے ہیں کہ ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ چینا جائیں کیونکہ وہاں ان کا سب کچھ ہی ختم ہو گیا تھا۔ اور کبھی من کرتا بھی ہے کہ اس مٹی کو چھو آئیں، جس میں وہ کھیلتے تھے، کھیتی کرتے تھے اور جس مٹی میں ان کا خون بھی شامل ہو گیا تھا۔

سبھاش چوپڑا اب دہلی میں بستے ہیں۔ مشہور صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے آن لائن بات چیت کی اور ان کی یادوں کو ریکارڈ کیا۔ سن سنتالیس میں وہ پندرہ سال کے تھے۔ پاک پتن میں بابا فرید کی درگاہ کے قریب ہی ڈھکی پر رہتے تھے۔ میٹرک کا امتحان دیا ہی تھا کہ ہجرت کے کڑے امتحان سے گزرنا پڑا۔

سن 2004ء  میں پاک پتن آئے تھے۔ اپنے آبائی گھر کی بوسیدہ دیواروں کو چھوا اور بچپن کے دوست لڈی سے بھی ملے۔ اپنے محبوب شہر کے گلی کوچے اور بازار دیکھے۔ مہران ہوٹل ٹھہرے تو مالک نے کرایا وصول نہیں کیا۔ بے حد پیار ملا مقامی لوگوں سے۔ اب بھی پاکپتن آنے کی شدید چاہت رکھتے ہیں۔ کہتے تھے بس کورونا وبا ختم ہو تو پھر اپنے شہر کی گلیوں میں کچھ پل جی لوں۔

سردار گردیپ سنگھ کی عمر 16 برس رہی ہو گی، جب بٹوارا ہوا۔ وہ کرنال (انڈیا) میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے ان سے ویڈیو رابطہ کیا۔ تقسیم سے قبل گردیپ سنگھ کے خاندان کا شمار متحدہ پنجاب کے بڑے سکھ زمینداروں میں ہوتا تھا۔ گردیپ سنگھ ہندوستان کے مشہور فارمر سردار بہادر سر داتار سنگھ کے بھتیجے ہیں۔

 سر داتار سنگھ ولایت سے زراعت اور ڈیری فارمنگ کی تعلیم حاصل کر کے آئے اور منٹگمری (ساہیوال) کے قریب متحدہ ہندوستان کا پہلا ڈیری فارم قائم کیا اور اعلی نسل کی گائے بھینسوں کی بریڈنگ کی۔ انگریز سرکار نے ان کو سر کے خطاب سے نوازا تھا۔ انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی بہو مانیکا گاندھی سر داتار سنگھ کی نواسی ہیں۔

منٹگمری، پاکپتن، عارف والا میں ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک اس خاندان کا آبائی گاؤں کلیانہ ہے، جو پاکپتن سے مغرب میں واقع ہے۔ ہم نے کلیانہ اور چک داتار سنگھ کی ویڈیو یو ٹیوب پہ اپلوڈ کی تو سردار گردیپ سنگھ نے رابطہ کیا۔ اپنا گاؤں دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ فرط جذبات میں آ کر کہنے لگے،  ''چشتی صاحب ہمارے لیے آپ قائد اعظم ہو، بہت بڑا کام کیا ہے آپ نے۔‘‘

 انہوں نے بتایا کہ 2013ء میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان آئے اور عارف والا میں اپنے آبائی گھر ''پیلی کوٹھی‘‘ اور ''سفید کوٹھی‘‘ دیکھنے گئے، ''گھر دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ پاؤں کے نیچے سے زمیں سرکتی محسوس ہوئی۔ یہاں ہماری جڑیں ہیں۔ ہمارے بچوں نے ہمارے آبائی علاقوں کا ذکر اتنا سن رکھا ہے کہ وہ بھی ان جگہوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

سردار گردیپ سنگھ کے والد سردار شیر سنگھ اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی گہری دوستی تھی۔ شیر سنگھ کا خاندان لیاقت علی خان کی حویلی میں جا بسا تھا اور کرنال میں ان  کی زرعی زمین بھی اسی خاندان کو الاٹ ہو گئی تھی۔ سردار گردیپ سنگھ بتاتے ہیں کہ 1970ء  میں لیاقت علی خان کے خاندان سے کچھ افراد کرنال آئے تھے۔ اپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی، حویلی دیکھی اور چپکے چپکے روتے رہے۔ لیاقت علی خان کی بیٹی نے کہا تھا، ''میرا وطن پاکستان بھی ہے اور یہ بھی ہے۔‘‘

سردار گردیپ سنگھ اپنے بچپن اور آبائی گھر کی یادوں میں کھو سے گئے تھے۔ بار بار ان کی آواز بھرا گئی تھی اور باوجود کوشش کے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے تھے۔ کہنے لگے، ''چشتی صاحب تُسی بارڈر کھولو، اسیں نس کے آواں گے۔‘‘

کانا سنگھ پنجابی کی مشہور شاعرہ اور ادیبہ ہیں، جن کی شاعری اور کہانیوں میں ان کا شہر گوجر خان (پاکستان) جھلکتا ہے۔ ان سے ہم نے آن لائن بات چیت کی۔ کانا سنگھ کہتی ہیں کہ ان کی تخلیقات میں نوے فیصد تو گوجر خان کی ہی یادیں ہیں اور پوٹھوہاری زبان کی مٹھاس ہے۔ وہ اپنے شہر گوجر خان کو پل پل یاد کرتی ہیں۔ ان کی نظموں، کہانیوں اور انٹرویوز میں شہر گوجر خان سے محبت ٹپکتی ہے۔ وہ ایک بار اپنا گھر اور شہر دیکھ چکی ہیں اور پھر بار بار آنے کی تمنا بھی دل میں بسا رکھی ہے۔

 تمام بزرگ، جن کو ہجرت کرنا پڑی، وہ اپنے گاؤں دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ روتے روتے اس دنیا سے چلے گئے۔ گنتی کے چند لوگ زندہ ہیں اور ان کو بھی اُمید نہیں کہ وہ جیتے جی اپنا گاؤں دیکھ سکیں گے۔

انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کو چاہیے کہ ان بزرگوں کے لیے بارڈر کھول دیں۔ بہت سارے بوڑھے افراد حج یا عمرے سے بھی زیادہ خواہش انڈیا جا کر اپنا پِنڈ دیکھنے کی رکھتے ہیں۔ ان کے گاؤں، دیہات زیادہ دور نہیں ہیں، پھر بھی عمر بھر کی دوری کیوں؟ اپنا گاؤں دیکھ کر ان کی روح کو قرار ملے گا۔ اپنی جنم بھومی سے مٹھی بھر مٹی لے آئیں گے اور اس کی خوشبو سے ان کی زندگی کے آخری دن معطر ہو جائیں گے۔

اس سے دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ تعصب کی دیواریں زمیں بوس ہو جائیں گی۔ محبت اور امن ہر سو پھیل جائیں گے۔ ان بزرگوں کو زندگی سے اور کچھ نہیں چاہیے شاید! یہ بوڑھے بچے صرف اپنے گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں۔ دیکھنے دیجیے نا!

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ اپنے علاقے میں بزرگوں کی 1947ء کی یادیں اکٹھی کرنے میں دلچسپپی رکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں