جبراﹰ فرانس بھیجے گئے ’چوری شدہ‘ بچوں کے ہنوز جواب طلب سوال
18 فروری 2021
فرانس کے سمندر پار علاقے لا رےاُونیوں کے وہ تقریباﹰ دو ہزار بچے جنہیں پیرس حکومت نے عشروں پہلے ان کے والدین سے علیحدہ کر کے زبردستی فرانس بھیج دیا تھا، آج بھی اپنے بارے میں بہت سے سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔
فرانس بھیجے جانے سے قبل ایمیل اور تقریباﹰ دو ہزار دیگر بچوں کو رےاُونیوں کے جزیرے پر ہی ایسی الگ تھلگ اجتماعی رہائش گاہوں میں رکھا گیا تھاتصویر: Marie Thérèse Payet
اشتہار
فرانس ماضی میں بہت بڑی نوآبادیاتی طاقت رہا ہے۔ 1960ء اور 1980ء کے درمیانی عرصے میں فرانس کا سمندر پار علاقہ کہلانے والے لا رےاُونیوں (La Réunion) سے تقریباﹰ دو ہزار مقامی بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر کے جبری طور پر فرانس بھیج دیا گیا تھا۔ ماضی کے یہ بچے آج کے بزرگ شہری ہیں اور ان میں سے بہت سے آج بھی اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے ان بےشمار سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں، جو ان کے زخموں کو مندمل کر سکیں۔
ایمیل بینوآ ہوآرو دیکھنے میں چمکدار آنکھوں اور مسکراتے چہرے والے ایک انسان ہیں، جنہین زندگی سے محبت ہے۔ ان کے معدے کے سرطان کی وجہ سے کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو ماضی میں لگنے والے زخموں کو چھپا کر مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند انتہائی اہم سوالات کے جوابات تو انہیں بھی درکار ہیں۔
ایمیل بحر ہند میں فرانس کے سمندر پار علاقے لا رےاُونیوں میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ چھ برس کی عمر میں وہ یتیم ہو گئے تو ان کی والدہ نے ایمیل اور ان کی دو بہنوں کی مناسب پرورش کے لیے بہت محنت کی۔ 1954ء میں جب ایمیل کی عمر نو سال تھی، تو پیرس میں فرانسیسی حکومت نے انہیں ان کے خاندان سے زبردستی علیحدہ کر کے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔
ماری جو ٹریئر نے ایمیل بینوآ ہوآرو کو ہمت دلاتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں اپنے گم شدہ خاندان کو تلاش کرنا چاہیےتصویر: Lisa Louis/DW
وجہ فرانس سے نقل مکانی کا ازالہ
اس اقدام کی وجہ یورپ میں فرانسیسی ریاست کے ان علاقوں کو دوبارہ آباد کرنے کا ایک حکومتی پروگرام بنا تھا، جہاں کی آبادی نقل مکانی کی وجہ سے بہت کم ہو گئی تھی۔ ان بچوں کو فرانس لا کر لیموزیں کے علاقے میں کروز جیسے اضلاع میں آباد کیا گیا تھا۔ آج فرانس میں ایسے شہروں کے لیے 'کروز کے بچے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
تب لا رےاُونیوں میں ان بچوں کے والدین کو پیرس حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کی نئی نسل فرانس میں اچھی تعلیم حاصل کرے گی اور بہتر سرکاری سہولیات کے ساتھ اس کا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا۔رےاُونیوں بحر ہند کا ایک جزیرہ ہے اور وہاں پر ایمیل کی طرح کے تقریباﹰ دو ہزار بچے ایسے تھے، جنہیں 1960ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جبری طور پر فرانس بھیج دیا گیا تھا۔
ڈراؤنا خواب
ایمیل اور ان کی طرح کے بہت سے دیگر بچوں کے لیے یہ جبری نقل مکانی ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ پہلے ان بچوں کو لا رےاُونیوں کے جزیرے پر ہی ایسی کئی مختلف اجتماعی رہائش گاہوں میں رکھا گیا، جن کی دیواریں چار چار میٹر اونچی تھیں۔ تب ان بچوں کو نا تو ان رہائش گاہوں سے باہر جانے کی اجازت تھی اور نا ہی وہ اپنے ہی وطن میں اپنے اہل خانہ سے مل سکتے تھے۔
ایمیل بینوآ ہوآرو اب رے اُونیوں کے جزیرے پر رہنے والی اپنی ایک بہن سے باقاعدگی سے آن لائن بات چیت کرتے ہیںتصویر: Lisa Louis/DW
وہاں سے نو سال بعد ان بچوں کے ان کے نئے مستقبل کی طرف سے سفر کا آغاز اس طرح ہوا کہ انہیں ملک بدر کر کے فرانس بھیج دیا گیا۔ فرانس میں انہیں وہ تعلیم نا ملی، جس کا پیرس حکومت نے وعدہ کیا تھا، بلکہ ان سے زرعی شعبے میں مزدوروں کا کام لیا جانے لگا۔
ایمیل بینوآ ہوآرو نے ایک تفصیلی انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دن رات کام کرتے تھے، جانوروں کی دیکھ بھال اور کھیتوں سے آلو نکالنا۔ مقامی کسانوں کو بتایا گیا تھا کہ ہم بہت خطرناک تھے، قاتل اور چور۔ وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور ہم سے غلاموں جیسا سلوک کرتے تھے۔ انہیں جب بھی موقع ملتا، وہ ہمیں مارنے پیٹنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔‘‘
کرب ناک یادیں
اکیس سال کی عمر میں جب ایمیل فرانسیسی مسلح افواج میں خدمات انجام دے چکے تھے، تو یہ تب ہوا کہ وہ ریاستی سرپرستی میں زندگی گزارنے والا کوئی فرد نا رہے۔ اپنی زندگی کے اکیس برس گزارنے کے بعد ہی انہیں یہ موقع ملا تھا کہ وہ اپنی زندگی، مصروفیات، پیشے اور دیگر امور میں جیسے چاہیں فیصلے کریں۔ ایمیل نے محنت جاری رکھی اور مختلف عمارات کو اندر باہر سے رنگ کرنے والے ایک پیشہ ور کاریگر بن گئے۔
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔
تصویر: DW/J. Hahn
9 تصاویر1 | 9
جب ایمیل کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار مل گیا، تو انہوں نے اپنے خاندان کا پتا چلانے کی کوشش کی۔ انہیں علم ہوا کہ ان کی والدہ کا تو انتقال ہو چکا تھا۔ تب ایمیل اتنے دکھی تھے کہ انہوں نے اپنے ماضی کی تکلیف دہ یادوں کو ایک بار پھر اس طرح دفن کرنے کا عزم کیا، کہ وہ دوبارہ کبھی ان کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔
پھر چند سال بعد ایمیل کی ملاقات ماری جو ٹریئر سے ہوئی، تو اس نوجوان خاتون نے اندازہ لگا لیا کہ ایمیل کو اس کے ماضی کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ ماری جو ٹریئر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''مجھے اس کے بہت تلخ مزاج ہونے کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔ پہلی بار جب ایمیل نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی، تو ہم دونوں رو پڑے تھے۔‘‘ اس کے بعد دونوں کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ انہوں نے شادی کر لی۔
ماری جو ٹریئر کہتی ہیں، ''اب ایمیل کی عمر 75 برس ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ کم از کم بھی دس پندرہ برس تو اور زندہ رہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ اس کی زندگی کے یہ باقی سال صرف اور صرف خوشی کے سال ہوں۔‘‘
2014ء میں فرانسیسی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ عشروں پہلے رےاُونیون کے ان ہزاروں 'چوری شدہ‘ بچوں کے حوالے سے فرانس پر اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
کیلے کے جنگل کیمپ سے پیرس تک
فرانس کے ساحلی شہر کیلے کے قریب واقع جنگل نامی مہاجر بستی سے بے دخل ہونے والے ہزاروں پناہ گزین پیرس میں مختلف مقامات پر نئی رہائش گاہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
پیرس میں بھی ٹھکانہ نہیں
جنگل کیمپ کی بندش کے بعد پیرس کی سڑکوں پر رہنے والے مہاجرین کی تعداد میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
ہیلو پیرس
کچھ تارکینِ وطن نے جنگل کی مہاجر بستی کو خیر باد کہنے کے بعد فرانسیسی دارالحکومت میں خیمے لگا لیے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
یورپ میں بے گھر
گزشتہ برس فرانس پہنچنے والے پناہ گزینوں کا تعلق زیادہ تر افغانستان،سوڈان اور اریٹیریا سے تھا۔ اِن میں سے اکثر نے ٹرکوں اور بسوں میں سوار ہو کر انگلش چینل کے ذریعے برطانیہ فرار ہونے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
کیلے سے نکالے جانے کا دن
مہاجر کیمپ کے رہائشیوں نے چھبیس اکتوبر کو مختلف مقامات پر آگ لگا کر قریب دس ہزار پناہ گزینوں کو کیمپ سے نکالے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Laurent
الوداع کیلے
دس ہزار کے قریب مہاجرین نے کیلے میں قائم ’جنگل‘ کیمپ کو اپنا گھر بنا رکھا تھا۔ یہاں رہتے ہوئے انہیں برطانیہ جانے کی امید تھی۔ کیلے میں حکام احتجاجی مظاہروں کے درمیان ان پناہ گزینوں کو دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
’جنگل‘
جنگل نامی مہاجر بستی میں مہاجرین کو اکثر ایسے عارضی خیموں میں بھی رہنا پڑا جو اُنہیں سخت موسم سے نہیں بچا سکتے تھے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
جنگل میں زندگی
ایک نو عمر لڑکا ’جنگل‘ کیمپ کے ایک ریستوران میں کھیل رہا ہے۔ وہ ریستوران جو اب باقی نہیں رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen
یورپ کے لیے باعثِ شرمندگی
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا ہے کہ فرانس کے لیے مہاجرین کی مزید کسی عارضی بستی کا قیام اب نا قابلِ قبول ہو گا۔ ’جنگل‘ یورپ میں مہاجرین کے بحران کی علامت بن چکا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
8 تصاویر1 | 8
اس بارے میں فرانسیسی حکومت کے متعلقہ محکمے کے کسی اہلکار نے ڈی ڈبلیو کی طرف سے درخواست کے باوجود کوئی باقاعدہ انٹرویو تو نا دیا مگر یہ کہا گیا کہ مختلف حکومتی محکمے ان 'مسروقہ‘ بچوں کے حوالے سے کئی طرح کے اقدامات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ایمیل کی طرح فرانس میں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں ایسے شہری موجود ہیں، جو برسوں قبل ایمیل ہی کی طرح بحر ہند کے اس جزیرے سے فرانس لائے گئے تھے۔ ان کا ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ وہ جب خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں، تو کسی کو کوئی جواب نہیں ملتا۔
ایمیل کہتے ہیں، ''حکومت کو ہمیں مالی ازالہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ بالکل مناسب مطالبہ ہے۔ اس لیے کہ ہمیں لوٹ لیا گیا تھا۔ ہمیں نقصان پہنچایا گیا۔ اگر میں آج کسی کو لوٹ لوں، تو کیا مجھے سزا نہیں ملے گی؟‘‘
لیکن ساتھ ہی ایمیل یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کوئی بھی زر تلافی ان کے بچپن اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی کو تو واپس نہیں لا سکے گا۔ وہ کہتے ہیں، ''اس ظلم کی تلافی تو ممکن ہی نہیں جن میرے اور میرے جیسے دیگر بچوں کے ساتھ کیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کسی انسان کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔ وہ کٹی ہوئی ٹانگ تو کبھی واپس نہیں آئے گی۔‘‘
لیزا لوئی (م م / ب ج)
فرانس کتنا حسین ہے؟ ذرا ان تصویروں سے پوچھیے
چودہ جولائی کو فرانس میں قومی دن کا جشن منایا جاتا ہے۔ سن 1789 میں اسی دن اہل فرانس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کر دیا تھا اور یوں انقلاب فرانس کا آغاز ہوا تھا۔ آئیے فرانس کے حسن پر ایک نظر ڈالیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/K. Thomas
پیرس
پیرس کے مشور عالم عجائب گھر لُوور میں مونا لیزا کی پینٹنگ کو سراہتے اور ایفل ٹاور سے فرانسیسی دارالحکومت کا نظارہ کرتے سیاح عجب سی خوشی کے عالم میں ہوتے ہیں۔ پیرس اپنے سیاحوں کو بے شمار قابل دید مقامات کے نظاروں کی دعوت دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/R. Julien
پرووانس
لیونڈر کے خوشبو دار کھیتوں، قرون وسطی کے پہاڑی دیہاتوں، چمکتی دھوپ اور ایک خاص روشنی ۔ یہ ہے فرانس کے خوبصورت مقام پرووانس کی تعریف۔ پکاسو اور شیگل جیسے آرٹسٹ یہاں کے حسن سے اتنے متاثر ہوئے کہ یہیں رہ گئے۔
سورج کی دھیمی دھیمی حرارت سینکنے کی خواہش فرانس میں بہت سے لوگوں کو بحیرہ روم کے اس ساحل تک لے آتی ہے۔ کوٹ دا زیور کو عیش و عشرت اور گلیمر کے لیے جانا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
دی الپس
الپس جنوب مشرقی فرانسیسی سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ مونٹ بلانک ماسییف پہاڑی سلسلہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/P. Royer
پیرے نیز
پیرے نیز کا علاقہ فرانس کے جنوب مغرب میں سپین کی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ یہ ہائیکنگ کرنے والوں کے لیے خاص دلچسپی کا حامل ہے۔ کہتے ہیں کہ جو یہاں بائیسکل چلا لے وہ صحیح معنوں میں تندرست تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/T. Muncke
لوئر کی ادی
لوئر فرانس کا سب سے طویل دریا ہے۔ ماسف سینٹرل سے اٹلانٹک تک اس کی لمبائی ایک ہزار بیس کلومیٹر ہے۔ یورپ میں کہیں بھی آپ کو اتنے چھوٹے رقبے میں اتنے زیادہ قلعے نہیں ملیں گے۔ ان میں سے ایک تصویر میں دکھائی دینے والا ’شیتو دا شیمبو‘ نامی یہ معروف قلعہ بھی ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/K. Thomas
برتھانے
فرانس کے مغرب میں برتھانے کا ساحل جنگلی حسن سے مالامال ہے۔ ہمیشہ بدلتے رہنے والا موسم اس علاقے کی خوبصورتی کو مزید متاثر کن بنا دیتا ہے۔ برتھانے فرانس میں دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا تفریحی مقام ہے۔
تصویر: picture alliance/L. Avers
نورمُن ڈی
یورپ بھر میں سب سے طاقتور لہریں ناورمنڈی میں دیکھی جاتی ہیں۔ ہر سال چند بار یہ جزیرہ پانی سے مکمل طور پر بھر جاتا ہے۔ یہاں قائم مونٹ سینٹ مائیکل فرانس میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Yves
کوٹ درژاں
اس فرانسیسی لفظ کا مطلب ہے ’ چاندی کا ساحل‘ جو بورڈاؤ کے مغرب میں واقع اٹلانٹک کوسٹ کو کہا جاتا ہے۔ سورج کی روشنی میں چمکتی ساحل کی ریت یہاں آنے والوں کے لیے خواب جیسا سماں پیدا کرتی ہے۔
تصویر: picture alliance/D. Karmann
خوشگوار شراب کے لیے انگور کے باغات
فرانس میں اعلی معیار کی شراب تیار کی جاتی ہے جو عالمی سطح پر بہت مقبول ہے۔ فرانس میں وائن بنانے کے چودہ مقامات ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔
فرانس کا ’الزس‘ علاقہ اپنے علاقائی کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے اور کھانے کے شائقین یہاں جوق در جوق چلے آتے ہیں۔ یہاں کھانا زیادہ مہنگا بھی نہیں اور مقدار میں بھی اچھا خاصا ہوتا ہے۔ سو ہر کسی کو اپنی جیب اور ذائقے کے مطابق کچھ نہ کچھ مل ہی جا تا ہے۔