عظیم ڈچ مصور ریمبرانٹ کے انتقال کو تین سو پچاس سال ہو گئے
مقبول ملک زابینے اوئلزے
4 اکتوبر 2019
مصوری کی دنیا کے کئی عظیم ترین شاہکار تخلیق کرنے والے ڈچ فنکار ریمبرانٹ کے انتقال کو ٹھیک ساڑھے تین سو سال ہو گئے ہیں۔ ہالینڈ کی مشہور ترین پینٹنگز بنانے والے اس مصور کا انتقال چار اکتوبر سولہ سو انہتر کو ہوا تھا۔
اشتہار
دنیا بھر میں ہالینڈ کے کسی اور مصور کی تخلیقات اتنی مشہور نہیں ہیں، جتنی کہ ریمبرانٹ کی۔ اس مصور نے خود اپنے بھی درجنوں پورٹریٹ بنائے تھے، جو نہ صرف اپنی جگہ شاہکار ہیں بلکہ اپنے ہی اتنے زیادہ پورٹریٹ دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے آرٹسٹ نے بنائے ہوں۔ فنون لطیفہ کے ماہرین اور نقاد ریمبرانٹ کو نہ صرف 'بلاشبہ ایک جینئس‘ تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک وہ متاثر کن حد تک جدت پسند بھی تھے۔
ایک مصور کے طور پر ریمبرانٹ 4 اکتوبر 1669ء کو اپنے انتقال کے دن تک روزانہ کئی کئی گھنٹے کھڑے ہو کر مصوری میں مصروف رہتے تھے۔ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں ان کی اس دنیا سے رخصتی کو آج جمعے کے روز ٹھیک ساڑھے تین صدیاں ہو گئی ہیں۔
ریمبرانٹ کے مصوری کے سفر کا نقطہ عروج ان کی انتہائی مشہور پینٹنگ 'دا نائٹ واچ‘ یا 'شبینہ پہرہ‘ کو قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی یہ پینٹنگ آج بھی ایمسٹرڈم کے 'رائکس میوزیم‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ریمبرانٹ، ایک مصور سے کہیں زیادہ
ریمبرانٹ وان رائن 1609ء میں ہالینڈ میں لائیڈن کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اناج پیسنے والی اپنی ایک چکی چلاتے تھے۔ ایک مصور کے طور پر ریمبرانٹ انتھک محنت کے عادی تھے۔
ان کے فن کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مصوری میں مختلف تخلیقی تجربات کرنے میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے اور تکنیکی طور پر وہ اتنے اختراع پسند تھے کہ ان کی فنی تخلیقات آج بھی انتہائی جدید محسوس ہوتی ہیں۔
اس عظیم ڈچ فنکار کی مصوری کا ایک بہت منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی کی کوششیں بھی کیں اور ساتھ ہی اپنی تصویروں کے ذریعے بہت سے تاریخی واقعات کو قابل دید بھی بنا دیا۔ انہوں نے مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں درج بہت سے واقعات کو بھی اپنی پینٹنگز کے موضوعات کے طور پر منتخب کیا۔
انسانی جذبات کی عکاس، بولتی ہوئی تصویریں
تاریخِ مصوری کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ریمبرانٹ نے اپنی پینٹنگز کے کرداروں کو ان کی جسمانی حرکات و سکنات کو محفوظ کرتے اور ان کے جذبات کا تصویری اظہار کرتے ہوئے انہیں بولنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی پینٹنگز میں روشنی اور مختلف رنگوں کے بہت متنوع تاثر کو اپنی اختراعی سوچ کے ساتھ ایسے استعمال کیا کہ انہیں ان کے امتزاج کی ایک نئی انتہا تک پہنچا دیا۔
آرٹ پیِس: قیدی مصوروں کے فن پارے
پاکستان میں قیدیوں کے بارے میں عام طور پر نہ تو کچھ زیادہ مثبت رائے پائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ تصور کہ جیلیں سزا یافتہ افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنا سکتی ہیں۔ کراچی میں جاری ایک نمائش نے اس تصور کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آرٹ گیلری میں نمائش
کراچی کی ایک نجی آرٹ گیلری ’آرٹ سٹی‘ میں کراچی سینٹرل جیل کے قیدیوں کے تیار کردہ فن پاروں کی نمائش کی جا رہی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آرٹ پِیس
اس نمائش کو آرٹ پِیس Artpeace کا عنوان دیا گیا ہے۔ 21 فروری سے شروع ہونے والی یہ نمائش 27 فروری تک جاری رہے گی۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
13 قیدیوں کے 112 فن پارے
آرٹ پِیس نمائش میں سینٹرل جیل کراچی کے 13 قیدیوں کے بنائے گئے 112 فن پاروں کی نمائش کی جا رہی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
جیل میں فائن آرٹس اسکول
کراچی سینٹرل جیل میں قائم فائن آرٹس اسکول میں تربیت حاصل کرنے والے ان قیدیوں نے مصوری کے مختلف اسلوب کے ذریعے اپنے فن کو اجاگر کیا ہے اور آرٹ کو اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آئل اور واٹر کلر کے علاوہ چارکول کا استعمال
اس نمائش میں رکھے جانے والے ان فن پاروں میں آئل پینٹنگز کے علاوہ واٹر کلر اور چارکول کا خوبصورت استعمال بھی نظر آتا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
فنکاروں کی پزیرائی
نمائش کو ملنے والی پزایرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ دنوں میں ہی زیادہ تر فن پارے فروخت ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
خیالات کا عکس
رسیوں کو توڑتے ہاتھ، ادھ کھلے دروازے سے باہر جھانکتا بچہ یا کسی گاؤں کے پس منظر میں بنائی گئی بعض تصاویر میں سلاخوں کے پیچھے قید ان مصوروں کے خیالات کا عکس واضع طور سے جھلکتا نظر آتا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
تجریدی آرٹ
ان پابند سلاسل فنکاروں نے کیلی گرافی، خوبصورت لینڈ اسکیپنگ اور تجریدی آرٹ کے ذریعے اپنے احساسات اور اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
2008ء سے سینٹرل جیل کے قیدیوں کی تربیت
سکندر جوگی سن 2008 سے سینٹرل جیل کے قیدیوں کو مصوری کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
زندگی کی جانب مثبت انداز
جوگی کے مطابق مختلف جرائم کی پاداش میں سزا کاٹنے والے ان مصور قیدیوں کو اس ہنر نے زندگی کی جانب مثبت انداز میں بڑھنے کا عزم دیا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
پہلے گھنٹے میں 30 فن پارے فروخت
نمائش میں رکھی گئی تصاویر کی قیمت سات ہزار سے نو ہزار کے درمیان رکھی گئی ہے۔ نمائش کے آغاز کے پہلے ہی گھنٹے میں ان فنکاروں کی 30 پینٹنگز فروخت ہوئیں۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
آمدنی جیل کے فائن آرٹس اسکول کے لیے
آرٹ پِیس نمائش کے دوران فن پاروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سینٹرل جیل کراچی میں قائم فائن آرٹس اسکول کو دی جائے گی، جہاں ان جیسے مزید قیدیوں کو بھی مصوری کی تربیت دی جائے گی۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
قیدیوں کا مثبت تاثر
آرٹ گیلری کے مہتمم کے مطابق اس نمائش کا مقصد ان مصور قیدیوں کو پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دینا اور بہتر طرز زندگی کی جانب مائل ہونے میں مدد دینا ہے۔
تصویر: ArtCiti Gallery Karachi, Pakistan
13 تصاویر1 | 13
ریمبرانٹ وان رائن 16 ویں صدی کے اطالوی مصوروں سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر تھے۔ اسی لیے جب وہ کوئی پینٹنگ بناتے تھے، تو جیسے تاریخ، بالخصوص فنی تاریخ ان کے ذہن سے نکل کر ان کے برش کے ذریعے ان کی تصویروں میں اتر جاتی تھی۔
حیران کن حد تک زیادہ ذاتی پورٹریٹ
ریمبرانٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود اپنے پسندیدہ ترین ماڈل بھی تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے اتنے زیادہ سیلف پورٹریٹ بنائے، جتنے شاید ہی کسی دوسرے مصور نے بنائے ہوں۔
ایمسٹرڈم کے 'رائکس میوزیم‘ میں ریمبرانٹ کی مصوری کے ماہر نقاد سمجھے جانے والے گریگور ویبر کہتے ہیں، ''میں یہ تو نہیں جانتا کہ ریمبرانٹ نے اپنے اتنے زیادہ پورٹریٹ کیوں بنائے تھے، لیکن مجھے ایک بات سمجھ آتی ہے۔ وہ شاید خود اپنے ہی ساتھ اور اپنی ہی دنیا میں مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے خود کو ایک ایسے سادہ ترین ماڈل کے طور پر استعمال کیا، جس کی مدد سے وہ ہر ممکنہ شے کی مصوری کا تجربہ کر سکتے تھے۔‘‘
ریمبرانٹ نے تقریباﹰ 40 برسوں میں اپنے 80 سیلف پورٹریٹ بنائے تھے، جن میں سے بہت سے اگر آئل پینٹنگز ہیں تو باقی اسکیچز۔ ایسے پورٹریٹ بنانے کے لیے وہ اپنی ہی ذات کے مصورانہ مشاہدے کے لیے آئینے کا استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے کچھ ایسے پورٹریٹ بھی بنائے، جن میں انہوں نے خود کو پینٹنگز بناتے ہوئے بھی دکھایا۔
گم شُدہ فن پارے ’لاسٹ آرٹ‘ کی وَیب سائٹ پر
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے اُس ذخیرے میں سے مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، جو اُس کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے اپارٹمنٹ سے ملے اور ضبط کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آنری ماتِیس کی ’بیٹھی ہوئی عورت‘
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر جو مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، اُن میں فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے گھر سے ملنے والی آنری ماتِیس کی بنائی ہوئی پینٹنگ ’بیٹھی ہوئی عورت‘ بھی شامل ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ نیشنل سوشلسٹ دور میں لُوٹے گئے فن پارے ہیں، حکام نے فروری 2012ء میں انہیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
مارک شاگال کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘
کورنیلئس گُرلٹ کے ذخیرے میں سے مشہور فرانسیسی مصور مارک شاگال (1887ء تا 1985ء) کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘ بھی ملی ہے۔ بیس ویں صدی کے اہم ترین مصورں میں شمار ہونے والے اظہاریت پسند مصور شاگال روسی نژاد یہودی تھے اور اُنہیں ’مصورں کی صف میں موجود شاعر‘ کہا جاتا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ولہیلم لاخنیٹ کی ’میز پر بیٹھی لڑکی‘
جرمن مصور ولہیلم لاخنیٹ (1899ء تا 1962ء) نے زیادہ تر شہر ڈریسڈن میں کام کیا۔ اُنہوں نے اپنے فن پاروں کے ذریعے جزوی طور پر نیشنل سوشلزم کی کھلی مخالفت کی۔ 1933ء میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے چند فن پاروں کو ’بگڑا ہوا آرٹ‘ قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔ فروری 1945ء میں ڈریسڈن پر فضائی بمباری کے نتیجے میں اُن کے زیادہ تر شاہکار تباہ ہو گئے۔ اب اُن میں سے چند ایک پھر سے منظر عام پر آئے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آٹو گریبل کی ’نقاب میں‘
جرمن مصور آٹو گریبل (1895 تا 1972ء) کی تخلیقات کو جرمنی میں آرٹ کی تحریک ’نیو آبجیکٹیویٹی‘ یا ’نئی معروضیت‘ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ KPD (کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی) کے رکن بنے، بعد میں ڈریسڈن میں ’رَیڈ گروپ‘ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1933ء میں اُنہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے فن پاروں کو کمیونسٹ آرٹ قرار دے کر رَد کر دیا گیا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایرش فراس کی ’ماں اور بچہ‘
مصور ایرش فراس جرمن مصوروں کی ’لاپتہ نسل‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ پروپیگنڈا نے اُن کی فنی سرگرمیوں کو بھی بڑے پیمانے پر محدود بنا دیا تھا۔ وہ ڈریسڈن کے فنکاروں کی ایک تنظیم کی مجلس عاملہ میں شامل تھے۔ اس تنظیم کو نیشنل سوشلسٹ حکومت نے تحلیل کر دیا تھا اور اُنہیں فنکار کے تشخص سے محروم کر دیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
لُڈوِک گوڈن شویگ کی ’مردانہ چہرہ‘
جرمن مجسمہ ساز لُڈوِک گوڈن شویگ اَیچنگز بنانے کے بھی ماہر تھے۔ اُن کی بنائی ہوئی اس گرافک تصویر کے ساتھ ساتھ ایک زنانہ تصویر بھی گُرلِٹ کے ذخیرے سے ملی ہے۔ امکان غالب ہے کہ یہ دونوں تصاویر بھی ’لوٹی ہوئی تصاویر‘ میں سے ہیں۔ ان تصاویر کے سابقہ مالکان کے ورثاء انہیں واپس مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
فرِٹس ماسکوس کی ’سوچتی ہوئی عورت‘
جرمن مجسمہ ساز فرِٹس ماسکوس (1896ء تا 1967ء) کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ ماسکوس کو ایک متنازعہ فنکار تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کا ایک فن پارہ 1938ء میں برلن میں ’بگڑے ہوئے آرٹ‘ کی ایک نمائش میں دکھایا گیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایڈورڈ مُنش کی ’شام، مالیخولیا وَن‘
ناروے کے اظہاریت پسند مصور ایڈرڈ مُنش کے کئی فن پارے گُرلِٹ کے ذخیرے میں سے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ وہی مصور ہیں، جن کا مشہور ترین شاہکار ’چیخ‘ 2004ء میں اوسلو کے مُنش میوزیم سے چرا لیا گیا تھا لیکن 2006ء میں مل گیا تھا۔ اُن کے اس گرافک شاہکار پر درج ہے کہ یہ 1896ء میں تخلیق ہوا تھا۔