زیرمشاہدہ کائنات کے نوے فیصد فاصلے پر 14 کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ کے مطالعے نے کائنات کی ابتدا سے متعلق انسانی سوچ کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے، کیوں کہ اس سے قبل ابتدائی کائنات سے متعلق لگائے گئے اندازے کچھ اور بتا رہے تھے۔
اشتہار
انتہائی فاصلے پر موجود اس جھرمٹ کا مطالعہ کر کے کائنات کی ابتدا سے متعلق معلومات کی توقع کی جا رہی ہے۔ محققین نے بتایا کہ کہشکشانی تصادم زمین سے قریب ساڑھے بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر ہوا اور یہ کائنات کی ابتدا کے فقط ایک ارب سال بعد کی بات ہے۔ کائنات 13 اعشاریہ سات ارب سال پرانی ہے۔ کہکشاؤں کا یہ جھرمٹ آج کی کائنات میں کسی ایک مقام پر ایسا سب سے بڑا جھرمٹ ہے۔
خلا سے خطرہ
10 ہزار کے قریب سیارچے ہماری زمین کے اطراف میں موجود ہیں۔ رواں برس بہت سے فلکیاتی واقعات پیش آچکے ہیں۔ یورپ ایک ایسا نظام تیار کر رہا ہے جو کسی سیارچے سے زمین کو خطرے کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کرے گا۔
تصویر: NASA/ESA/Hubble SM4 ERO Team
یورپ کا خطرے سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام
10 ہزار کے قریب سیارچے زمین کے قریب خلاء میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ زمین کے لیے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) ان سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے کے خطرات سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام تیار کر رہی ہے۔ یہ نظام اٹلی میں فراسکاتی کے قریب نصب کیا جائے گا۔ ٹینریفے میں نصب اس طرح کی دور بینوں کا ڈیٹا اس نظام میں جمع کیا جائے گا۔
تصویر: IQOQI Vienna
زمین کے قریب سے گزرتے سیارچے
اگر آپ قبل از وقت آگاہی کے نظام کی اہمیت جانناچاہیے ہیں، تو پھر رواں برس 15 فروری کو روسی علاقے چلیابِنسک میں گرنے والے شہابی پتھر کا تصور کیجیے۔ اس سے پیدا ہونے والا دھماکہ 100 سے 1000 کلوٹن ٹی این ٹی کے دھماکے جتنا طاقتور تھا۔ اس سے قریب 1500 افراد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpah
برفانی جھیل میں سوراخ
زمینی فضا میں داخلے کے وقت اس پتھر کے قطر کا اندازہ 20 میٹر لگایا گیا ہے۔ مگر ہوا کی رگڑ کے باعث جل کے تباہ ہونے کے بعد اس پتھر کا وزن محض ایک کلوگرام کے قریب رہ گیا تھا۔ اس کے باوجود جب یہ زمین پر گرا تو برف میں چھ میٹر قطر کا سوراخ پیدا ہوا۔
تصویر: Reuters
زیادہ بڑا اور زیادہ خطرناک
لیکن "2012 DA14" نامی سیارچہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔ اس کا وزن 130,000 ٹن تھا۔ اسی دن جب شہابی پتھر چلیابِنسک میں ٹکرایا، 2012 DA14زمین سے محض 27 ہزار کلومیٹر کی دوری سے گزرا۔ یہ بعض مصنوعی سیاروں کے زمین سے فاصلے سے بھی کم ہے۔
تصویر: NASA/Science dpa
مزید سیارچوں کا زمین کے قریب گزرنے کا امکان
رواں برس کئی دیگر سیارچوں کے بھی زمین کے قریب گزرنے کا امکان ہے۔ سائنسدان ایسے سیارچوں اور شہابیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی چھوٹی چٹان بھی کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دُمدار ستارے اور ٹوٹتے ستارے
دُمدار ستارے گیس کے بادلوں اور گیس، پتھروں اور دیگر ذرات پر مشتمل لمبی دم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی چھوٹا سا پتھر بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 3000 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ جلنے کے باعث چمکنے اور ٹوٹے ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
اگر شہابی پتھر جل کر تباہ نہ ہوں
شہابی پتھر اکثر ہماری فضا میں داخل ہونے کے بعد ہوا کی رگڑ کے باعث جل کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے جو زمین کی سطح تک پہنچنے سے قبل مکمل طور پر تباہ نہیں بھی ہوتے ان کا سائز ایک چھوٹے پتھر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تاہم بڑے شہابیے کافی نقصان کر سکتے ہیں۔ اب تک شہابی پتھر کے باعث زمین پر پڑنے والا سب سے بڑا گڑھا ایریزونا میں ہے۔ اس کا قطر 1000 میٹر ہے اور یہ 50 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: cc-by/LarryBloom
ایک دور کا خاتمہ
اب سے اندازاﹰ 65 ملین برس قبل ایک بڑا سیارچہ جزیرہ نما یُکاتان Yucatan میں گِرا تھا۔ اس کی منظر کشی اس خیالی تصویر میں کی گئی ہے۔ اس کے باعث Chicxulub نامی گڑھا پیدا ہوا جس کا قطر 180 کلومیٹر سے زائد تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ واقعہ زمین سے ڈائنوسارس کی نسل کے خاتمے کا سبب بنا۔
تصویر: picture alliance/dpa
جلی ہوئی چٹانیں
سیارچے دراصل جلی ہوئی چٹانوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر سیاروں پر بھی ایسے سیارچے ٹکراتے رہتے ہیں۔ ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی روبوٹ گاڑی اپورچونٹی نے مریخ پر 2005ء میں مریخ کی سطح پرکسی بیرونی خلائی جسم کے ٹکرانے کے سبب پیدا ہونے والا گڑھا دریافت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb
مگر اس سب کے باوجود
زمین کے باسیوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فلکیاتی ماہرین کے مطابق بڑے سیارچوں یا شہابیوں کے اگلے 100 برس کے دوران زمین سے ٹکرانے کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق 14 کہکشاؤں کا یہ جھرمٹ پہلی مرتبہ یوں مشاہدہ کیا گیا ہے اور یہ ملکی وے کہکشاں (ہماری کہکشاں جس میں نظام شمسی اور زمین موجود ہے) سے فقط چار گنا بڑے علاقے پر پھیلا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ فلکیاتی اندازوں کے مطابق کائنات کی ابتدا کے اتنا جلدی ایس پی ٹی 2349ْ کہلانے والا یہ جھرمٹ تخلیق نہیں پانا چاہیے تھا۔ محققین کے مطابق موجودہ طبعیاتی نظریات کے مطابق اس انداز کا جھرمٹ کئی ارب سال بعد نمودار ہونا چاہیے تھا۔
کینیڈیا کی ڈالہوئس یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات اسکاٹ چمپمن کے مطابق، ’’ہم اس کے اثرات کا سوچ کر پریشان ہیں۔ عمومی سوچ یہی تھی کہ ایسا جھرمٹ کائنات کی ابتدا کے بہت عرصے بعد تخلیق پایا ہو گا۔ کیوں کہ ہمارے خیال کے مطابق کہکشاؤں کا جھرمٹ بننے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مگر ایس پی ٹی 2349 نے ہمیں بتایا کہ نظریات کے برعکس ایسا بے حد جلدی ہو سکتا ہے۔‘‘
کہکشاؤں کا جھرمٹ، جس میں ہزاروں کہکشاؤں تک ہو سکتی ہیں اور ان کی کمیت ہمارے سورج سے کوآرڈریلین (کھربوں کھربوں) گنا زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ ڈارک میٹر جیسے مواد کی وجہ سے ایک دوسرے سے بندھی ہوتی ہیں، جب کہ ان کے مرکز میں بھی انتہائی بڑے بلیک ہولز موجود ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرنے والی ان کہکشاؤں کے ستارے بھی مرکز گریز قوت کے باوجود کہکشاں سے بندھے رہتے ہیں۔
پلوٹو کی انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی تصویریں
ناسا کا تحقیقاتی مشن ’نیو ہورائزن‘ نو برس تک سفر کرتا رہا اور پھر کہیں جا کر نظام شمسی کے آخری سرے پر پلوٹو تک پہنچا۔ اس بونے سیارے کی انتہائی عمدہ تصاویر اب جاری کر دی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL/SwRI
اتنی اچھی تصاویر جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئیں
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ان تصاویر میں پلوٹو کی سطح کو انتہائی قربت سے دیکھا گیا ہے۔ پہاڑی اور برفیلے علاقوں سے مزین اس چھوٹا سے سیارے کی تصاویر پلوٹو کی ایک غیرمعمولی شکل دکھا رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/NASA/JHUAPL/SwRI
انتہائی اچھی تصویریں
نیو ہورائزن پلوٹو کے قریب سے گزرا، تو اس پر نصب دوربین ’لوری‘ نے ہر تین سیکنڈ کے وقفے سے اس بونے سیارے کی تصاویر کھینچیں۔ اس دوربین کے کیمرے کی شٹر اسپیڈ کا پورا فائدہ اٹھایا گیا، اور پلوٹو کی سطح کا باریکی سے مطالعہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Jhuapl/Swri
ایک بڑا فرق
اس تصویر میں پلوٹو کا موسم گرما کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کی نگاہ سے پلوٹو کی یہ تصاویر اس بونے سیارے کی اب تک کی تمام تصاویر سے بہت بہتر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL
دسترس میں
پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک وقت ايسا بھی تھا، جب یہ خلائی جہاز اس بونے سیارے سے صرف 350 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اس تصویر میں پلوٹو کا سب سے بڑا چاند چارون بھی دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
ایک سیارہ جو اب سیارہ نہیں
سن 2006ء میں نیو ہورائزن کی روانگی کے چھ ماہ بعد بین الاقوامی فلکیاتی یونین (IAU) نے پلوٹو کی بابت ایک اہم فیصلہ کیا۔ اس کا مدار سیاروں کی طرح گول نہیں، اس لیے اسے سیاروں کی کیٹیگری سے نکال کر ’بونے سیاروں‘ کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا۔ پلوٹو جس جگہ پر ہے، وہاں اس طرح کے کئی آبجیکٹس دیکھے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Saurer
حجم کا تقابل
اس تصویر میں سورج، عطارہ، زہرہ، زمین اور مریخ دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کے بعد نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون ہیں۔ ان کے آگے یہ چھوٹا سا نکتہ پلوٹو ہے، جس کی قطر صرف دو ہزار تین سو ستر کلومیٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پلوٹو کے تمام چاند گول نہیں
نیوہورائزن نے اس بونے سیارے کے چاندوں کو بھی دیکھا۔ اس کے تمام چاند گول نہیں۔ ڈیٹا کے مطابق پلوٹو کا ایک چاند سٹیکس آٹھ سے اٹھائیس کلومیٹر قطر کا ہے۔ اس خلائی جہاز سے چارون، نِکس اور ہائیڈرا کی تصاویر بھی حاصل ہوئیں۔
تصویر: NASA/ESA/A. Feild (STScI)
چاند کا چاند بھی
پلوٹو کے ایک چاند نِکس کے بارے میں اس تحقیقاتی مشن سے قبل زیادہ معلومات دستیاب نہ تھیں۔ نیو ہورائزن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ چاند پلوٹو کے گرد گول مدار میں گردش نہیں کرتا، بلکہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاند چارون کی تجاذبی کشش کی وجہ سے ایک انوکھا سا مدار بناتا ہے، یعنی نِکس پلوٹو کے چاند کا چاند بھی ہے۔
نیوہورائزن پر تین آپٹیکل آلات تھے، جن کا کام پلوٹو کے مختلف مقامات کی تصاویر ریکارڈ کرنا تھا، جب کہ دو پلازما اسپیٹرو میٹر تھے، جو اس بونے سیارے پر سولر وِنڈز (شمسی شعاعیں) کے ذرات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ گرد اور ریڈیو میٹر بھی نصب تھے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
آپٹیکل دوربین
ٹیکنیشنز نے طویل فاصلے سے تصاویر ’لوری‘ نامی دوربین نصب کی تھی۔ اسی سے ہمیں پلوٹو کی انتہائی عمدہ تصاویر حاصل ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے سے سیارے پر موجود تابکاری کو طول موج سے ماپا گیا۔ اس خلائی جہاز پر ساڑھے آٹھ کلوگرام سے زائد وزن کا یہ اعلیٰ دیگر آلات کے مقابلے میں بھاری ترین تھا۔
تصویر: NASA
2006 سے سفر
نیو ہورائزن نے 19 جنوری 2006 کو پلوٹو کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ کیپ کانیورل سے اٹلس فائیو راکٹ کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے اس خلائی جہاز نے زمین اور سورج کے تجاذب سے نکلنے کے لیے 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کیا۔ کسی خلائی جہاز کی اب تک کی یہ تیز ترین رفتار تھی۔
تصویر: NASA
سورج سے دور بہت دور
اس خلائی جہاز کی منزل نظام شمسی کا آخری سرا تھا۔ اس کے راستے میں مشتری اور ایک دم دار ستارہ آيا اور نو سال، پانچ ماہ اور 24 دن تک مجموعی طور پر 2.3 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اس بونے سیارے تک پہنچا۔
تصویر: NASA
12 تصاویر1 | 12
سائنس دانوں کے مطابق ایس پی ٹی 2349 میں سیاروں کی تخلیق کی رفتار ملکی وے کہکشاں میں ستاروں کی تخلیق سے قریب ایک ہزار گنا تیز ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ انتہائی دور کی کہکشاؤں کے مشاہدے کا مطلب ماضی میں جھانکنا ہوتا ہے، یعنی ان کہکشاؤں سے زمین تک آنے والی روشنی نے چوں کے اربوں سال قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، اس لیے ان کہکشاؤں کا دیکھنا اربوں برس قبل کے لمحات کے مشاہدہ کرنے سے عبارت ہے۔