عفرين کے دفاع کے ليے شامی کردوں کا دمشق حکومت سے سمجھوتہ
عاصم سلیم
19 فروری 2018
شامی شہر عفرين پر چڑھائی کرنے والی ترک افواج کے خلاف متحدہ ہو کر لڑنے کے ليے شامی کُرد فورسز اور دمشق حکومت کے مابين ايک سمجھوتہ طے پا گيا ہے۔ اس پيش رفت کی تصديق ايک سينئر شامی کُرد اہلکار نے کی۔
اشتہار
شمالی شام ميں کرد انتظاميہ کے ايک مشير بدران جيا کرد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ صدر بشار الاسد کی حامی افواج آئندہ دو دنوں ميں متعلقہ خطے ميں داخل ہو سکتی ہيں اور پھر چند دستوں کو سرحدی پوزيشنوں پر بھی تعينات کر ديا جائے گا۔ جيا کرد نے کہا، ’’خطے ميں جاری مظالم اور ان پر بين الاقوامی سطح پر خاموشی کے تناظر ميں ہم ہر اس فريق کے ساتھ تعاون کے ليے تيار ہيں، جو ہماری طرف مدد کا ہاتھ بڑھائے۔‘‘
دمشق حکومت اور کردوں کے مابين طے پانے والا يہ سمجھوتہ شمالی شام ميں جاری جنگ ميں پيچيدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس خطے ميں دمشق حکومت کی حامی فوج تو سرگرم ہے ہی مگر ترکی، امريکا، روس اور کردوں کا اثر و رسوخ بھی واضح ہے۔ شامی حکومت کے دستے اور کرد فورسز ميدان جنگ ميں ايک دوسرے کے خلاف بھی لڑتے رہے ہيں ليکن دونوں فريقوں کے مابين يہ تازہ سمجھوتہ اور اس کے تحت ہونے والی پيش رفت ہی يہ طے کرے گی کہ خطے ميں جاری لڑائی کيا رخ اختيار کرے گی۔
واضح رہے کہ انقرہ حکومت نے عفرين ميں عسکری کارروائی پچھلے ماہ شروع کی تھی۔ ترکی کے مطابق يہ کارروائی کردوں کی YPG نامی مليشيا کے خلاف کی جا رہی ہے، جسے ترک حکام اپنے ملک میں سرگرم کردستان ورکرز پارٹی ہی کی ايک شاخ کے طور پر ديکھتے ہيں۔ ترک افواج پچھلی تين دہائيوں سے پی کے کے کے خلاف برسرپيکار ہيں اور اس ممنوعہ تنظیم کو امريکا اور يورپی يونين نے بھی دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ فی الحال اس سمجھوتے کی تصديق کردوں کی جانب سے ہی کی گئی ہے اور شامی حکومت نے تاحال اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا۔ جب وائی پی جی کے ترجمان سے اس ڈيل کے بارے ميں پوچھا گيا، تو نوری محمود کا کہنا تھا کہ ابھی تک شامی فوج کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔
دوسری جانب شمالی شام ميں کرد انتظاميہ کے ايک مشير بدران جيا کرد نے تفصيلات بيان کرتے ہوئے کہا کہ سمجھوتہ ويسے تو قعطی طور پر عسکری نوعيت کا ہے تاہم اس ميں سياسی امور پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’بعد ازاں خطے کے سياسی اور انتظامی معاملات دمشق حکومت کے ساتھ مشاورت اور براہ راست بات چيت کے عمل سے طے کيے جائيں گے۔‘‘ البتہ جيا نے مزيد بتايا کہ چند فريق اس ڈيل کے خلاف بھی ہيں۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔