شامی علاقے عفرین میں ترک افواج اور کرد جنگجوؤں کے مابین ہفتے کے دن ہوئی تازہ لڑائی میں سات ترک سپاہی مارے گئے ہیں۔ اب تک اس آپریشن میں کسی ایک دن میں ترک افواج کا یہ سب سے بڑٓا جانی نقصان ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین فروری بروز ہفتہ شامی علاقے عفرین میں ہوئی تازہ لڑائی میں سات ترک فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ ترک فوج نے ہمسایہ ملک شام کے علاقے عفرین میں فعال کرد باغیوں کے خلاف یہ عسکری مہم بیس جنوری کو شروع کی تھی اور اب تک کسی ایک دن میں ترک فوجیوں کی ہلاکتوں کا یہ سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کرد نیوز پورٹل Raudaw نے ترک فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن عفرین میں ترک فوجیوں کی یہ ہلاکتیں تین مختلف واقعات کے دوران رونما ہوئیں۔ بتایا گیا ہے کہ پانچ فوجی ایک ٹینک پر ہوئے حملے میں لقمہ اجل بنے جبکہ دو سپاہی دو مختلف مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔
تاہم ان حملوں کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ گزشتہ ماہ بیس جنوری کو شروع ہوئی اس کارروائی کے نتیجے میں یوں اب تک ہلاک ہونے والے ترک فوجیوں کی تعداد چودہ ہو گئی ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی خومختاری اور سالمیت کی خاطر شامی کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ انقرہ حکومت اس گروہ کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ قرار دیتی ہے، جو 80 کی دہائی سے ترکی میں باغیانہ تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی علاقے عفرین میں پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کا قبضہ ہے۔ یہ کرد ملیشیا شامی خانہ جنگی میں شامل متعدد اعتدال پسند گروہوں کے علاوہ امریکا کی بھی حمایت یافتہ قرار دی جاتی ہے۔ یہ گروہ شام میں انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف کارروائیاں سر انجام دیتا رہا ہے۔
ترکی کو شام میں اس طرح کی فوجی کارروائی پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔ تاہم صدر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ ترکی سے متصل شامی علاقوں کو ’دہشت گردوں‘ سے مکمل صاف کرنے تک یہ کارروائی جاری رہے گی۔ ترک حکومت کی اس کارروائی کا مقصد کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قیام کیا جا سکے۔
کردستان ورکرز پارٹی سن انیس سو اسی کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکی میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس جنگجو گروہ اور سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کے باعث کم ازکم چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔