ترک افواج نے شامی علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کو پسپا کرتے ہوئے عفرین شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ترک فورسز گزشتہ دو ماہ سے اس علاقے میں کارروائی میں مصروف تھیں۔ کرد جنگجوؤں نے خبردار کیا ہے کہ اب وہ گوریلا ہو گی۔
اشتہار
آج بروز اتوار ترک افواج نے کامیاب پیشقدمی کرتے ہوئے شامی ڈسٹرکٹ عفرین کے وسطی شہر عفرین کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ میڈیا پر جاری ہونے والی فوٹیج کے مطابق اس شہر کے مرکزی علاقے میں ترک افواج نے ترکی کا پرچم بلند کر دیا ہے۔
گزشتہ دو ماہ سے جاری اس لڑائی میں ترک افواج کو مقامی شامی ملیشیا گروہوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ عفرین کی اس لڑائی کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ شہری متاثر ہوئے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کے دن کہا کہ عفرین شہر کے وسطی علاقے کا آج صبح ساڑھے آٹھ بجے کنٹرول سنبھال لیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس دوران کرد جنگجو بڑے پیمانے پر ’دم دبا کر بھاگ گئے‘ ہیں۔
اس کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا کہ اب ترک فورسز شمالی شام کے ایسے دیگر علاقوں میں بھی کارروائی کریں گی، جہاں کرد باغی فعال ہیں۔ دوسری طرف ترک حکومت کے ایک ترجمان نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ تاہم عفرین میں دہشت گرد ختم ہو چکے ہیں۔‘‘
ترک فورسز کو سرحدی علاقے میں یہ کامیابی ایک ایسے وقت میں ملی ہے، جب شامی خانہ جنگی رواں ہفتے ہی آٹھویں برس میں داخل ہوئی ہے۔ انقرہ حکومت شمالی شامی علاقے عفرین میں فعال کرد پروٹیکشن یونٹ YPG کو کردستان ورکرز پارٹی کا حامی قرار دیتی ہے۔
ترکی کا الزام ہے کہ یہ باغی سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں، اس لیے شامی سرحدی علاقوں میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن ناگزیر ہو چکا تھا۔
شامی علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کی اس شکست کو ان کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم کئی سکیورٹی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ترک فورسز اور اتحادی ملیشیا گروہوں نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم کرد جنگجو طاقت جمع کرتے ہوئے جوابی کارروائی کر سکتے ہیں۔
عفرین کے رہائشیوں نے نیوز اداروں کو بتایا ہے کہ بظاہر کرد باغی ترک فورسز سے لڑائی کے بغیر ہی شہری علاقے سے فرار ہوئے ہیں۔ شامی حزب اختلاف کے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بیس جنوری سے شروع ہونے والے عفرین آپریشن کے دوران پندرہ سو کرد جنگجو مارے گئے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق اس لڑائی میں دو سو اسی سے زائد شہری بھی لقمہ اجل بنے تاہم انقرہ حکومت ان خبروں کو مسترد کرتی ہے۔
دوسری طرف شامی کردوں نے کہا ہے کہ عفرین کی لڑائی کا ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا گیا ہے، جب ترک فورسز نے حامی ملیشیا گروہوں کے تعاون سے شمالی شام کے شہر عفرین کا قبضہ سنبھال لیا ہے۔ اس علاقے کی کرد انتظامیہ نے اتوار کے دن کہا ہے کہ اب جنگجو براہ راست لڑائی کے بجائے گوریلا جنگ شروع کریں گے۔
عفرین ایگزیکٹیو کونسل کے شریک چیئرمین عثمان شیخ عیسیٰ نے کہا کہ ان کی فورسز علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ترک اہداف کو نشانہ بنائیں گی۔ دو ماہ کی لڑائی کے بعد ترک فورسز اتوار کے دن ہی عفرین میں ان کرد باغیوں کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ع ب / ش ح / اے ایف پی
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔