علاقائی ممالک حماس کو خطے سے نکالیں، نیتن یاہو کا مطالبہ
18 نومبر 2025
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ایک روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس امن منصوبے کی توثیق کی، جس میں حماس کو امن کی شرط پر عام معافی اور ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے ستمبر کے آخر میں وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران اس 20 نکاتی منصوبے کی اعلانیہ حمایت کی تھی، تاہم ان کے تازہ ترین بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اب سے آگے کے راستے پر کچھ اختلافات موجود ہیں۔ دوسری جانب حماس نے بھی منصوبے کے کچھ حصوں پر اعتراض کیا ہے۔
سفارت کاروں کا نجی طور پر کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں کی سخت گیر پوزیشنوں کی وجہ سے مجوزہ امن منصوبے پر عمل درآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں کیونکہ اس میں کوئی واضح ٹائم لائن یا اس کے نفاذ کا کوئی میکینزم موجود نہیں ہیں۔ دریں اثناء اس منصوبے کو عالمی سطح پر زبردست حمایت حاصل ہے۔
نیتن یاہو نے منگل کو ایکس پر متعدد پوسٹس میں عالمی سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے نتائج پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے صدر ٹرمپ کی تعریف کی، جبکہ دوسری میں لکھا کہ اسرائیلی حکومت کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ امن و خوشحالی لائے گا کیونکہ اس میں غزہ کو ''مکمل غیر فوجی بنانے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی تلفی اور انتہا پسندی کا خاتمہ‘‘شامل ہیں۔
حماس کے رفح میں محصور عسکریت پسندوں کا کیا بنے گا؟
انہوں نے مزید لکھا، ''اسرائیل اپنے تمام پڑوسیوں کی طرف امن و خوشحالی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔‘‘ انہوں نے علاقائی ممالک سے اپیل کی کہ وہ ''ہمارے ساتھ مل کر حماس اور اس کے حامیوں کو علاقے سے نکالنے میں شامل ہوں۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان سے جب ''حماس کو نکالنے‘‘ کے معنی پوچھے گئے، تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ '' 20 نکاتی منصوبے کے مطابق غزہ میں حماس کا وجود ختم کرنا اور یہ یقینی بنانا کہ حماس کے پاس فلسطینی عوام بالخصوص غزہ پٹی پر حکومت کرنے کی کوئی صلاحیت نہ رہے۔‘‘
ٹرمپ کا منصوبہ حماس کی جلاوطنی کا مطالبہ نہیں کرتا
صدر ٹرمپ کے منصوبے میں ایک شق یہ ہے کہ حماس کے وہ ارکان، جو پرامن بقائے باہمی اور ہتھیار ڈالنے کا عہد کریں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی، جبکہ جو ارکان جانا چاہیں، انہیں تیسرے ممالک جانے کے لیے محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ ایک اور شق میں یہ کہا گیا ہے کہ حماس غزہ پٹی کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اس منصوبے میں حماس کے مکمل خاتمے یا غزہ پٹی کو چھوڑنے کا کوئی واضح مطالبہ نہیں ہے۔
منصوبے میں مقبوضہ مغربی کنارے پر قائم فلسطینی اتھارٹی میں ان اصلاحات کا ذکر ہے، جو بالآخر ''فلسطینی خود مختاری اور ریاستی حیثیت کے قابل اعتماد راستے‘‘ کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
عالمی سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے قبل نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی اب بھی مخالفت کرتا ہے، خاص طور پر، جب ان کے انتہا پسند اتحادیوں نے امریکہ کے حمایت یافتہ اس بیان پر شدید احتجاج کیا تھا، جس میں فلسطینی آزادی کے راستے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو غزہ پٹی کی حکومت میں فلسطینی اتھارٹی کی کسی بھی طرح کی شمولیت کے بھی خلاف ہیں۔
جنگ کے بعد غزہ کے لیے کثیر القومی فورس
سلامتی کونسل کی قرارداد نے غزہ میں استحکام کے لیے ایک کثیر القومی فورس کی تعیناتی کی منظوری دی ہے، جو ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق عارضی طور پر تعینات کی جائے گی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک غزہ میں تعمیر نو اور معاشی بحالی کی نگرانی کے لیے قائم ہونے والے ''بورڈ آف پیس‘‘ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
حماس نے اس قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ''سیاسی اور انسانی حقوق‘‘ پورے نہیں کرتی اور فلسطینی عوام غزہ پٹی پر کسی بین الاقوامی سرپرستی کو مسترد کرتے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی فورس صرف غزہ پٹی کی سرحدوں پر جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تعینات کی جائے اور وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو۔ اس فلسطینی گروپ نے خبردار کیا کہ اگر یہ فورس حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کرے گی، تو اپنی غیر جانبداری کھو دے گی۔
غزہ پٹی میں ایک بے گھر ہونے والے تاجر ابو عبداللہ نے فون پر بتایا، ''اگر بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کا مطلب اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ہے تو فلسطینی اس کی حمایت کریں گے۔ حماس تنہا ہماری قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتی، مگر ہم ایک قبضہ (اسرائیل) ختم کر کے دوسرا بین الاقوامی قبضہ بھی نہیں چاہتے۔‘‘
ادارت: مقبول ملک