تعلیم و ثقافتی تعلقات کے لیے کام کرنے والے برطانوی عالمی ادارے برٹش کونسل نے اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے منصوبے ’علم پوسیبل‘ پر بات چیت کی گئی۔
اشتہار
کانفرنس میں شامل شُرکاء نے ’علم پوسیبل‘ یا ’ تعلیم ممکن ہے‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے تعلیم کی اہمیت پر تقاریر کیں۔ اس تقریب میں شریک شمیم اختر نامی ایک لڑکی نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُسے بچپن میں لڑکا بن کر تعلیم حاصل کرنا پڑی کیوں کہ اُس کے علاقے میں لڑکیوں کے گھروں سے باہر نکلنے اور اسکول جانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔
شمیم اختر نے کہا کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب اُس کے لیے لڑکا بن کر تعلیم حاصل کرنا ممکن نہ رہا تو اس نے کالج میں داخلے کے لیے بھوک ہڑتال کر دی جس سے تنگ آکر اس کے والدین بالآخر اسے کالج بھیجنے پر رضامند ہو گئے۔
’علم پوسیبل‘ ایک ایسی آگاہی مہم ہے جس کا مقصد عوام کو بتانا ہے کہ ملک کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت حکومت نے ہر شہری کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان میں برٹش کونسل کے ترجمان طورسم خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ علم بوسیبل، پروگرام کا آغاز جنوری سن 2014 میں کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک دو لاکھ پچیس ہزار بچوں کا سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرایا گیا ہے جن میں ایک لاکھ پینتیس ہزار بچیاں ہیں۔ ‘‘ طورسم خان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنا اور وہاں ان کے اندراج اور حاضری کو یقینی بنانا ہے۔
منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے طورسم خان نے مزید بتایا کہ ملک بھر میں پندرہ ہزار کارکنوں اور ساڑھے تین سو محلہ کمیٹیوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنایا ہے۔ ان کارکنوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر والدین کو آمادہ کیا ہے کہ وہ بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں۔
مریم زاہد نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،''صرف کراچی میں ہی بیس لاکھ سے زیادہ بچے اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘
تعلیم کے شعبے سے منسلک متعدد شخصیات نے تقریب میں شرکت کی اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نوجوان بستے ہیں لیکن دوسرے نمبر پر اسکول نہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی یہیں رہتی ہے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں پاکستان میں لگ بھگ 20 ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
سائیکلوں نے دیا لڑکیوں کو ایک نیا اعتماد
پاکستان کے صوبے پنجاب کی تحصیل عارف والا میں جرمن حکومت کے تعاون سے ایک مقامی این جی او اسکول جانے والی طالبات کو بائیسکلز فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ پابندی سے اسکول جا سکیں اور ان کی تعلیم میں خلل نہ پیدا ہو۔
تصویر: K. Farooq
لڑکیوں میں خود اعتمادی
اب عارف والا تحصیل کی لڑکیاں ہر روز سائیکل پر اسکول آتی جاتی ہیں۔ سائیکل نے نہ صرف ان کو اعتماد دیا ہے بلکہ گاؤں کی گلیوں، کھیتوں اور سٹرکوں پر سائیکل چلا کر اسکول پہنچنے والی ان بچیوں میں آگے بڑھنے کی امید بھی پیدا کر دی ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیوں کے والدین بھی خوش
اسکول کی پرنسپل نسیم اشرف کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں آس پاس کے دیہات کی بچیاں آتی ہیں، بہت سی لڑکیاں گرمی میں لمبی مسافت پیدل طے کر کے اسکول پہنچتی ہیں۔ سائیکل ملنے کے بعد اب بہت سی لڑکیاں چھٹیاں کم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ڈر تھا کہ والدین اپنی بچیوں کو سائیکل نہیں چلانے دیں گے لیکن جب اسکول کی نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو سائیکلیں دی گئیں تو والدین بہت خوش ہوئے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیاں تو اب موٹر سائیکل بھی چلاتی ہیں
سائیکل ملنے والی ایک بچی رابعہ کے والد جمال دین کہتے ہیں، ’’میری بیٹی سائیکل ملنے سے پہلے رکشے میں اسکول جاتی تھی، اب میری بچت ہو رہی ہے اور میری بیٹی خوشی سے سائیکل پر اسکول جاتی ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا گاؤں میں کچھ افراد اعتراض تو نہیں کرتے کہ لڑکی اکیلے سائیکل چلا کر اسکول جاتی ہے تو جمال دین نے کہا کہ اب تو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں، اگر میری بیٹی سائیکل چلائے تو اس میں کیا عیب ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
210 لڑکیوں میں سائیکلیں تقسیم
عارف والا میں ’اَرج ڈیویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے نمائندے خالد فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تحصیل عارف والا میں کل 210 سائیکلیں بچیوں کو تقسیم کی گئی ہیں۔ سائیکل دینے سے پہلے والدین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان کی مرضی ہو تو ہی لڑکیوں کو سائیکلیں دی جاتی ہیں۔
تصویر: Khalid Farooq
مسجد کے امام کی بیٹی بھی سائیکل پر
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مقامی مسجد کے امام قاری محمد افضل سے بھی ان کا موقف جانا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک لڑکی نہایت گرمی میں روز پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہے۔ اگر وہ سائیکل چلا کر اسکول پہنچے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ قاری صاحب نے علاقے میں ایک عمدہ مثال ایسے قائم کی ہے کہ ان کی اپنی بیٹی بھی اب سائیکل پر ہی اسکول جاتی ہے۔
تصویر: K. Farooq
روشن مستقبل کی سیٹرھی
ایک بچی کے والد کا کہنا ہے کہ۔’’مجھے احساس ہو گیا ہے کہ غربت سے نکلنے کے لیے مجھے اپنی بیٹی کو پڑھانا ہو گا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو، وہ ہم سے بہتر زندگی گزار سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری بیٹی کو دی جانے والی سائیکل صرف آمدورفت کا ذریعہ نہیں ہے، یہ اسے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے کی سیٹرھی ہے۔‘‘