علیل ملکی معیشت کے سامنے زندگی ہارتے ہوئے یونانی
29 اپریل 2012یونان میں عام انتخابات کا وقت قریب ہے لیکن مالی مصائب نے عوام کو کئی طرح سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ انتخابات مئی کی چھ تاریخ کو شیڈول ہیں۔ سارا ملک سیاسی خبروں کے بجائے خود کشیوں میں اضافے سے پریشان ہے۔ بحیرہ روم کے کنارے آباد اس ملک کا میڈیا اور عوام اس وقت خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے گرداب میں ہیں۔
یونان میں اسی ہفتے کے دوران پیر کے روز جیالوجی کے ایک اڑتیس سالہ استاد نیکوس پولیووس (Nikos Polyvos) نے گلے میں پھندہ ڈال کر خود کو ہلاک کیا۔ اس نے خود کشی کے لیے دارالحکومت ایتھنز کی ایک اسٹریٹ لائٹ کے پول کا انتخاب کیا۔ پیر ہی کے روز شمالی یونان میں ایک پینتیس سالہ پادری نے اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی سے چھلانگ لگا کر اپنا زندگی کا سفر ختم کر دیا۔ چار روز قبل بدھ کے دن ایک 23 سالہ طالب علم نے خود کو پستول کے فائر سے ہلاک کر لیا۔ سب سے زیادہ لرزا دینے والی خود کشی دارالحکومت ایتھنز کے دواسازی کے پیشے سے ریٹائر ہونے والے کرسٹولاس دیمتریس (Dimitris Christoulas) کی خودکشی ہے۔ کرسٹولاس نے وسطی ایتھنز کے مرکزی چوک میں خود کو گولی مار کر ہلاک کیا۔
چار اپریل کے روز یونانی دارالحکومت ایتھنز میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مرکزی چوک سنٹیگما اسکوائر (Syntagma Square) پہنچ کر، 77 سالہ دیمتریس نے خود کشی سے قبل ایک نوٹ تحریر کیا۔ کرسٹولاس نے لکھا کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا باوقار طریقہ یہی سمجھتا ہے کیونکہ وہ زندگی گزارنے کے لیے کوڑےکرکٹ کے ڈبوں کی تلاشی نہیں لے سکتا۔ یونان میں حکومت کے بچتی پلان کے تحت مالی مصائب اور بےروزگاری کے شکار لاکھوں شہریوں کے لیے دیمتریس ایک علامت بن گیا ہے۔
یونانی میڈیا روزانہ ایسی خودکشیاں رپورٹ کر رہا ہے اور یہ یونان میں مایوسی اور افسردگی کی تصویر بھی ہے اور اس اداس ماحول میں عام لوگ انتخابی عمل سے بےنیاز دکھائی دیتے ہیں۔ یونان کے طبی حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی خودکشیاں اصل میں یونانی معاشرے میں گہری مایوسی اور ناامیدی کے علاوہ لوگوں میں بےیار و مددگار ہونے کے احساس کی عکاس بھی ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق میڈیا ایسی اموات کو بیان کر کے اس بحرانی رویے کے عمل میں شدت پیدا کر رہا ہے۔
یونان کے معروف نفسیاتی تجزیہ کار نیکوس سیڈیریس (Nikos Sideris) کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یونان میں مالی مشکلات کی وجہ سے پیدا شدہ بحران میں عام لوگوں میں احساس ندامت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذات کے احترام کے فقدان اور بےوقعتی کی شدت نے ذات سے نفرت کے رویے کو جنم دیا ہے اور اب یہ مایوس کن رویہ ذات کی نابودگی کا باعث بن رہا ہے۔ ایتھنز کے ماہر نفسیات کے مطابق بڑھتی ہوئی محرومی کی وجہ سے خود کشی اور اقدام خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چند سال قبل انتہائی پرمسرت زندگی بسر کرنے والی یونانی قوم میں اب ڈپریشن بڑی شدت سے سرایت کر چکا ہے۔
یونان میں مالی مصائب سے قبل خود کشی کا رجحان انتہائی کم تھا اور یہ ملک دنیا بھر میں انتہائی کم خودکشیوں والے ممالک میں شمار کیا جاتا تھا۔ سن 2010 کے پہلی ششماہی کے دوران اس میں 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سردست سن 2011 میں ہونے والی خودکشیوں کا مصدقہ ریکارڈ موجود نہیں ہے لیکن ماہرین کے خیال میں یہ تعداد اس وقت دوگنا ہو چکی ہے۔ سن2009 میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے خودکشی کرنے والوں کی کل تعداد ڈھائی افراد بنتی تھی جو سن 2011 میں پانچ ہو چکی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ خود کشی کی یہ شرح فن لینڈ اور جرمنی سے اب بھی کم ہے۔ جرمنی میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے نو لوگ خودکشی یا اقدام خودکشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ فن لینڈ میں یہی شرح چونتیس افراد فی ایک لاکھ شہری ہے۔
موجودہ حالات میں خاندانوں کو خود کشی کے کلنک سے بچانے کے لیے کئی یونانی اپنی گاڑیوں کے دانستہ ایکسیڈنٹ بھی کر دیتے ہیں۔ پولیس بھی اقدام خود کشی کے ان واقعات کو حادثے قرار دے رہی ہے۔ خاندانی لوگ خود کشی کے واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے خود کشی کرنے والے رشتہ داروں کی تدفین ہو سکے۔ یونانی آرتھوڈوکس چرچ خود کشی کے ذریعے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی اجازت نہیں دیتا۔
ah/mm (Reuters)