1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مودی کو مدعو کرنے کا تنازعہ

جاوید اختر، نئی دہلی
21 دسمبر 2020

برصغیرپاک و ہند کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی حالات پر زبردست اثرات مرتب کرنے والے تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کو مدعوکرنے کا معاملہ خاصا متنازعہ ہوگیا ہے۔

Indien | Aligarh Muslim University
تصویر: Mohsin Javed

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی منگل 22 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کریں گے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے وہ یونیورسٹی جانے کیبجائے اپنی تقریر ورچوئل پلیٹ فارم کے ذریعہ کریں گے۔اس کے باوجود ان کی شرکت کی حمایت اور مخالفت دونوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مودی کی شرکت، باعث افسوس

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں وزیراعظم مودی کو مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کرنے کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ  ایسے شخص کو مدعو کرنا قطعی مناسب نہیں تھا جس کی جماعت سکیولر قدروں اور مسلمانوں کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی زبردست مہم چل رہی ہے۔ 

سابق ممبر پارلیمان اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر محمد ادیب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ”صد سالہ تقریبات کے موقع پر کسی عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم یا دانشور کو مدعو کرنا چاہیے تھا لیکن یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے شخص کو مدعو کیا گیا ہے جس کا تصور ہی علی گڑھ تحریک کے خلاف ہے اور جس کی زندگی کا مقصد ہی مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کو کمزور کرنا ہے اور جس شخص نے اس ملک کی روح کو چھین لیا ہے۔"

محمد ادیب کا مزید کہنا تھا،'' بھارتی جنتا پارٹی کی مرکز ی اور اترپردیش کی ریاستی حکومت میں ٹھیک ایک برس قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس نے جو مظالم ڈھائے ان کو کون بھول سکتا ہے۔ آج بھی بہت سارے طلبہ کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔‘‘

معروف بھارتی مورخ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں وزیراعظم نریندر کی شرکت اس تعلیمی ادارے کے لیے 'فخر کا موجب نہیں ہے، بالخصوص اس لحاظ سے بھی کہ یہ وہی وزیر اعظم ہیں جنہوں نے ہندوستان کی قدیم ثقافت کے حوالے سے ملک کو گمراہ کیا ہے۔‘  پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ بی جے پی اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو تباہ تو نہیں کرسکتی ہے لیکن وہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس کو غلط ڈھنگ سے پیش ضرور کرسکتی ہے۔

یونیورسٹی میں پولیس کارروائی کے خلاف طلبہ کا مظاہرہتصویر: DW/S. Mishra

اختلاف کا حق، لیکن تعلقات بھی ضروری

تاہم ایک دوسرے حلقے کا کہنا ہے کہ ہر چیز کو سیاست کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کسی شخص کے ذاتی خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن تعلیمی ادارے اور حکومت کے درمیان خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں۔

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلرپروفیسر اختر الواسع نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ”سیاسی جماعتوں سے ہی نہیں بلکہ حکومتوں کی پالیسیوں سے بھی اختلاف رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اداروں اورحکومتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ ہے متاثر نہ ہونے پائے۔ ہمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بھی سیاست سے اوپر رکھنا چاہئے۔"

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم پروفیسر اخترالواسع نے دنیا بھر میں موجود 'علیگ برداری‘ سے اپیل کی کہ چونکہ ہماری مادرعلمی کے معاملات کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ براہ راست حکومت سے متعلق ہیں اور یہ براہ راست وزارت تعلیم کے تحت ہے لہذا اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔

​​علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کی موجودگی پر بی جے پی نے زبردست ہنگامہ کیا تھا۔  تصویر: picture alliance/CPA Media/Pictures From History

بھارتی دانشور اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان بھی وزیر اعظم مودی کو مدعو کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا”آج ملک میں جس طرح فرقوں کے درمیان اختلافات بڑھ رہے ہیں ایسے میں اگر وزیر اعظم نے دعوت قبول کی ہے تو اسے ایک اچھی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے، اسے ایک مثبت پیش رفت سمجھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ حکومت اپنی سابقہ پالیسیوں پر ازسر نو غور کررہی ہے۔ آخرحکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو سالانہ تین سو سے چارسو کروڑ روپے کی مالی مدد بھی فراہم کرتی ہے۔"

 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا کہ اگر مودی کے موقف میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے تو اس کا خیرمقدم ہونا چاہئے لیکن اگر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے تب بھی ہمارا کیانقصان ہوگا۔ کسی کے خلاف سخت ردعمل سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ ماضی میں بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اور مستقبل میں بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔"

سرسید احمد خان کا مزارتصویر: Mohsin Javed

سن 1964 کے بعد پہلے وزیر اعظم

سن 1964میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خطاب کرنے والے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہوں گے۔اس موقع پر بھارتی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک بھی موجود ہوں گے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور نے علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں اور دنیا بھر میں موجود علیگ برادری سے اپیل کی ہے کہ وزیر اعظم مودی کی شرکت کو سیاست سے بالاتر رکھیں۔

یونیورسٹی کے ایک دیگر اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کی شرکت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں میں ایک زبردست پیغام جائے گا جو مختلف اسباب کی بنا کر یونیورسٹی کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔‘ حتی کہ وہ یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔

دو سال قبل علی گڑھ سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ستیش گوتم نے اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کی موجودگی پر زبردست ہنگامہ کیا تھا۔ حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ چونکہ محمد علی جناح کو اسٹوڈنٹ یونین کی لائف ممبر شپ دی گئی تھی اس لیے دیرینہ روایت کے مطابق محمد علی جناح کی تصویر آویزاں ہے۔

پاکستان کے سابق صدر ایوب خاں نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھیتصویر: imago stock&people

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پاکستان

سرسید احمد خان نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے خطوط پرعلی گڑھ میں 1857میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا۔ اسے 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کانا م اور ایک قانون کے ذریعہ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بھارت کی تحریک آزادی اور قیام پاکستان میں اہم رول ادا کیا۔ پاکستان کے متعدد اہم رہنماؤں نے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان میں صدر پاکستان ایوب خان اور فضل الہی خان، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین، سابق گورنر جنرل ملک غلام محمد، بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم محمد منصور علی، پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین حبیب اللہ مروت، سابق وزیر انعام الحق خان اور روئیداد خان نیز بادشاہ خان کے نام سے مشہور خان عبدالغفار خان وغیرہ شامل ہیں۔

جاوید اختر/ ک م

جامعہ عثمانیہ کا منفرد ’قرآن باغ‘

05:13

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں