1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران اور فضل الرحمنٰ کا طالبان کے نمائندے بننے سے انکار

شکور رحیم، اسلام آباد3 فروری 2014

عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

تصویر: Aamir QureshiAFP/Getty Images

پاکستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان مجوزہ مذاکرات کے لیے طالبان نے اپنی طرف سے جن پانچ افراد کے نام تجویز کیے تھے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے ایک رہنما کا نام بھی دیا گیا تھا۔

وفاق میں حزب اختلاف جبکہ شورش زدہ صوبے خیبر پختوانخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ا علامیے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان پر کیے جانیوالے اعتماد کو سراہتی ہے لیکن کور کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عمران خان طالبان کی پانچ رکنی مصالحتی کمیٹی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ تاہم کمیٹی نے کے پی کے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ہرممکن طریقے سے مذاکراتی عمل کے لیے سہولت مہیا کرے۔

امن کوششوں کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں لیکن مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے زیادہ امید نہیں دلاسکتے، مولانا فضل الرحمنتصویر: Abdul Sabooh

پانچ نکاتی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مذاکراتی عمل ملکی آئین کے اندر رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ مثبت فضاء قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین جنگ بندی کریں خصوصاﹰ مذاکراتی عمل کے دوران دہشتگردانہ حملے بند ہونے چاہیں۔

اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم کو امریکی حکومت سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ ماضی کی طرح اس بار بھی مذاکرات کا عمل ڈرون حملوں کی نظر نہ ہو جائے۔

پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا: ’’مذاکرات کا عمل شفاف ہونا چاہیے تاکہ ان میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں پتہ چل سکے۔ مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے بعد ٹائم لائن دینی چاہیے تاکہ مذاکرات کو سبو تاژ ہونے سے بچایا جاسکے۔‘‘

طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جس پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا تھا اس میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے ایک رہنماء مفتی کفایت اللہ کا نام بھی شامل تھا۔ تاہم پیر کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکمران مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ پارٹی کا فیصلہ ماننے کے پا بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذکرات کے حوالے سے ان کی جماعت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اوران کا طالبان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وہ امن کوششوں کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں لیکن مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے زیادہ امید نہیں دلاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ گرینڈ جرگے کے انعقاد کے بغیر امن کا حصول مشکل ہے۔

اس سے قبل طالبان کی جانب سے اعلان کردہ کمیٹی کے تین ارکان مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی خیبر پختوانخواہ کے امیر پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیزنے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ جلد سے جلد مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک طالبان کی جانب سے انہیں مطالبات کی کوئی فہرست نہیں دی گئی اور مذاکرات کے سلسلے میں ابھی کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا جا سکتا۔

عمران خان کی جانب سے مذاکراتی عمل میں شرکت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے کہا: ’’بڑے شدو مد سے انہوں (عمران خان) نے دھرنا بھی دیا۔ انہون نے نیٹو سپلائی روکنے پر بھی بڑا نمایاں کام کیا تو اب جب وقت آیا ہے اللہ تعالی نے ان کو بھی ایک موقع دیا ہے کہ اس آگ کو بھجانے میں تعاون کریں۔‘‘

طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، نواز شریفتصویر: Reuters

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن قائم ہو جائے تو اس سے بہتر کچھہ نہیں ہو سکتا۔ لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور طالبان کی جانب سے مصالحتی کمیٹیوں کے ارکان کو قابل قدر قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا: ’’اب یہ دونوں کمیٹیاں آپس میں بیٹھ کر میرا خیال ہے اس عمل کو آگے بڑھائیں گی۔ میں ذاتی طور پر اس عمل کی نگرانی کر رہا ہوں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ آپ سب کی طرح میری بھی دعا اور خواہش ہے کہ یہ معاملہ آگے بڑھے۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے عمران خان اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے ایک ایک رکن کو مصالحتی کمیٹی میں رکھنا بظاہر ایک سیاسی حکمت عملی تھی تاہم دونوں جماعتوں نے بھی سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عمل میں براہ راست شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے۔

دریں اثناء طالبان کی کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے حکومتی کمیٹی کے ارکان عرفان صدیقی اور میجر (ریٹائرڈ) محمد عامر سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ دونوں جانب کے ارکان کے مطابق انہوں نے منگل چار فروری کو اسلام آباد میں ملاقات پر اتفاق کیا ہے تاکہ بات چیت کا عمل جلد سے جلد شروع کرنے کے لیے ابتدائی بات چیت کی جاسکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں