عمران اور مودی کی دوطرفہ فضائی کارروائیوں کے بعد پہلی گفتگو
26 مئی 2019
رواں سال فروری ميں دوطرفہ فضائی کارروائیوں کے بعد پاکستانی وزير اعظم عمران خان اور ان کے بھارتی ہم منصب نريندر مودی نے پہلی مرتبہ براہ راست گفتگو کی ہے۔ اس بات چيت ميں خان نے مودی کو اليکشن جيتنے پر مبارک باد پيش کی۔
تصویر: MEA India
اشتہار
پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے نريندر مودی کو دوسری مدت کے ليے بھارتی وزير اعظم چنے جانے پر مبارک باد پيش کی۔ دونوں رہنماؤں کے مابين ٹيلی فونک گفتگو اتوار چھبيس مئی کے روز ہوئی۔ رواں سال فروری ميں دوطرفہ فضائی کارروائیوں کے بعد ايٹمی قوت کی حامل حريف رياستوں کے وزرائے اعظم کے مابين پہلی براہ راست بات چيت کی تصديق دونوں ممالک کی وزارت خارجہ نے کر دی ہے۔ اس بارے ميں جاری کردہ اپنے بيان ميں پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ وزير اعظم خان نے مودی سے بات کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری کے ليے مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس بيان کے مطابق جنوبی ايشيا ميں امن، استحکام اور ترقی کے ليے عمران خان مودی کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہيں۔
دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بيان ميں لکھا ہے کہ مودی نے خطے ميں امن، استحکام و ترقی کے ليے تعاون بڑھانے ميں اعتماد سازی سميت تشدد و دہشت گردی سے محفوظ ماحول بنانے کی ضرورت پر زور ديا۔
رواں سال فروری ميں بھارتی زير انتظام کشمير ميں ايک خود کش بم دھماکے ميں بھارتی نيم فوجی دستوں کے چاليس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ايک ايسے جنگجو گروپ نے تسليم کی تھی، جو پاکستان ميں فعال ہے۔ اس پيش رفت کے بعد دونوں ممالک ميں کشيدگی کافی بڑھ گئی تھی۔ بھارت نے پاکستانی حدود ميں جيش محمد کے ايک بڑے مبينہ ٹھکانے پر فضائی حملوں کا دعوی کيا تو پاکستان نے ايک کارروائی ميں ايک بھارتی لڑاکا طيارہ مار گرايا۔
بھارت ميں حال ہی ميں منعقدہ لوک سبھا کے انتخابات ميں نريندر مودی فاتح رہے۔ انہيں اس بار پچھلی مرتبہ سے بھی زيادہ سيٹيں مليں۔ انتخابات سے قبل اپنی انتخابی مہم ميں مودی نے پاکستان کے خلاف سخت رويہ اپنائے رکھا، جو سياسی تجزيہ کاروں کے خيال ميں اس بہتر کارکردگی کی ايک وجہ ہے۔ عمران خان اور نريندر مودی کے مابين آخری مرتبہ ٹيلی فونک گفتگو پچھلے سال اس وقت ہوئی تھی جب انتخابات ميں کاميابی پر مودی نے خان کو مبارک باد دی تھی۔
بھارت میں مودی کی جیت کا جشن
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سن دو ہزار چودہ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے جیت سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اپوزیشن کی کانگریس جماعت کو صرف 51 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج ہیں لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نریندر مودی کی جماعت واضح برتری سے جیت جائے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
بی جے پی کو اکثریتی حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جماعت بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت سازی کرے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی تقریبا 50 سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں اور اس طرح نریندر مودی کی جماعت کے ہاتھ میں تقریبا 330 سیٹیں آ جائیں گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارت میں ان تمام تر ووٹوں کی گنتی آج تئیس مئی کو مکمل کر لی جائے گی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیرحتمی نتائج انتہائی ناقابل اعتبار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سن 2004ء کے ابتدائی خیر حتمی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن حتمی نتائج سامنے آنے پر کانگریس جیت گئی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے ایک علاقائی لیڈر نے ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا انڈیا ٹوڈے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Dave
دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی نے بدھ کے روز ان ابتدائی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اڑتالیس سالہ گاندھی کا اپنے حامیوں سے ٹویٹر پر کہنا تھا، ’’جعلی ابتدائی نتائج کے پروپیگنڈا سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ابتدائی نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہول گاندھی کو ریاست اترپردیش میں امیٹھی کی آبائی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نسلوں سے گاندھی خاندان اس حلقے سے منتخب ہوتا آیا ہے۔