عمران خان اور آئی ایم ایف: پاکستان کا ’بیل آؤٹ المیہ‘ ہے کیا
3 اگست 2018
پاکستان میں عام الیکشن کی فاتح تحریک انصاف کے عمران خان کے پاس وزیر اعظم بننے اور حکومت سازی کے بعد سوچ بچار کے لیے زیادہ وقت نہیں ہو گا۔ انہیں ملکی معیشت کی نازک حالت میں بہتری لانے سمیت بہت سے کام بہت جلد کرنا ہوں گے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ تین اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک تفصیلی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق چند ہی روز بعد عمران خان کے پاس اس کام کے لیے کوئی وقت نہیں بچے گا کہ وہ اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کے جشن مناتے رہیں۔
پاکستان کے اگلے وزیر اعظم کو جس داخلی، اقتصادی اور سیاسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں نئی حکومت کو کئی معاملات پر فوری اور نتیجہ خیز انداز میں توجہ دینا پڑے گی۔ ان معاملات میں ملکی معیشت کی بہت نازک صورت حال سرفہرست ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو اگلے چند ہی ہفتوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے اپنے ملک کے لیے ایک نیا مالیاتی بیل آؤٹ پیکج لینا پڑے گا۔ کئی عام پاکستانی شہری یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اس ملک کے موجودہ بہت شدید اقتصادی اور مالیاتی مسائل ہیں کیا؟ ماہرین کے مطابق ان مسائل کی مندرجہ ذیل پہلوؤں سے درجہ بندی کی جا سکتی ہے:
مالی ادائیگیوں کے توازن کا بحران
جنوبی ایشیا کی یہ ریاست، جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، مالی ادائیگیوں کے توازن کے ایک بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
9 تصاویر1 | 9
بجٹ میں بےتحاشا خسارہ
پاکستان کے سالانہ بجٹ میں مالی خسارہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلسل بڑھا ہے اور اب اس کا تناسب تشویش ناک حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے اس بجٹ خسارے کی شرح 2013ء میں چار فیصد سے بڑھ کر اب 10 فیصد ہو چکی ہے۔
بہت مہنگی درآمدات
گزشتہ کئی برسوں، خاص کر پچھلے پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں درآمد کی جانے والی مصنوعات کا حجم اور مالیت بہت زیادہ ہو چکے ہیں، زیادہ تر بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بھی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جولائی 2017ء اور مارچ 2018ء کے درمیانی نو ماہ کے عرصے میں پاکستان نے اپنے ہاں درآمدات کے لیے جتنی بھی مالی ادائیگیاں کیں، ان میں سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد ادائیگیاں صرف تیل، مشینری اور مختلف دھاتوں کی درآمد کی مد میں کی گئی تھیں۔
برآمدات میں اضافہ غیر تسلی بخش
پاکستانی معیشت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے حجم میں فرق گزشتہ برسوں میں بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ پاکستانی برآمدات کی مالیت ملکی درآمدات کی مالیت سے بہت کم ہے۔ اس ملک کی زیادہ تر برآمدات ٹیکسٹائل کے شعبے کی مصنوعات ہوتی ہیں اور ماضی قریب میں ان برآمدات کی شرح میں اضافہ بہت معمولی رہا ہے۔
کس جماعت کو کتنے پاکستانیوں نے ووٹ دیے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سب سے نمایاں رہی۔ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد قریب 106 ملین تھی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس جماعت کو ملک بھر سے کتنے ووٹ ملے۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
1۔ پاکستان تحریک انصاف
قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک بھر سے 16.8 ملین ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوا۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی پنجاب سے 11.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے، سندھ سے 1.5 ملین ووٹوں کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا سے 2.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے جب کہ بلوچستان میں ایک لاکھ نو ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad
2۔ پاکستان مسلم لیگ نون
پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی محض 64 نشستیں حاصل کر پائی لیکن ملک بھر سے 12.9 ملین افراد نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی ایم ایل این پنجاب سے 10.5 ملین ووٹوں کے ساتھ دوسرے، سندھ سے 2 لاکھ 37 ہزار ووٹوں کے ساتھ آٹھویں، خیبر پختونخوا سے 6 لاکھ 43 ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور بلوچستان سے قریب 29 ہزار ووٹ حاصل کر کے گیارہویں نمبر پر رہی۔
تصویر: Reuters/M. Raza
3۔ پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی 6.9 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہی۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی پی پی کو سب سے زیادہ 3.8 ملین ووٹ سندھ میں ملے جہاں اسے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ جماعت پنجاب میں 1.8 ملین ووٹ حاصل کر کے چوتھے، خیبر پختونخوا میں قریب ساٹھ لاکھ ووٹوں کے ساتھ چھٹے اور بلوچستان میں 57 ہزار ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
4۔ آزاد امیدوار
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کو مجموعی طور پر چھ ملین سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
5۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان
مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے 2.5 ملین ووٹ حاصل کیے اور اس اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں دوسرے، بلوچستان میں تیسرے، سندھ میں چوتھے اور پنجاب میں چھٹے نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/U. Fatima
6۔ تحریک لبیک پاکستان
تحریک لبیک پاکستان سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ کوئی اور نشست حاصل نہیں کر پائی تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اسے ملک بھر سے قریب 2.2 ملین ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے ٹی ایل پی کو چار لاکھ ووٹ ملے اور یہ ساتویں نمبر پر رہی۔ پنجاب میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوئی جسے 1.8 ملین ووٹ ملے تاہم وہ یہاں سے کوئی ایک نشست بھی نہ جیت پائی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
7۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
گرینڈ ڈیموکرٹک الائنس صوبہ سندھ میں متحرک تھی اس جماعت کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1.25 ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں کو 1.5 ملین ووٹ ملے۔
تصویر: DW/U. Fatima
8۔ عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے اے این پی ساتویں بڑی سیاسی طاقت رہی جسے 8 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 8 لاکھ ووٹ حاصل کر کے اس صوبے میں اے این پی تیسری بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔
تصویر: DW/Faridullah Khan
9۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قومی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواروں کو 7 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدوار 7 لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
10۔ پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار 5 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی ایم ایل قریب چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے ساتویں نمبر پر رہی۔
تصویر: PR Department of Pakistan Muslim League
11۔ بلوچستان عوامی پارٹی
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی بی اے پی نامی اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کے لیے قریب ساڑھے چار لاکھ جب کہ قومی اسمبلی کے لیے 3 لاکھ ستر ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
تصویر: Abdul Ghani Kakar
12۔ بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار 2 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اعتماد حاصل کر پائے جب کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: DW/A.G. Kakar
13۔ اللہ اکبر تحریک
اللہ اکبر تحریک کو حافظ سعید کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ جماعت قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرپائی تاہم قومی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں نے ملک بھر سے ایک لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
13 تصاویر1 | 13
زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی
ان جملہ وجوہات کی وجہ سے پاکستانی ریاست کے پاس موجود زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے اور اس وقت ان کی مالیت کم ہو کر قریب 10.3 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حال ہی میں ملک کی موجودہ نگران حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پر جاری کیے گئے تھے۔
ماہرین کے مطابق زر مبادلہ کے اتنے کم ذخائر اس لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ ان رقوم کے ساتھ پاکستان مستقبل میں اپنی صرف دو ماہ یا اس سے بھی کم عرصے کی درآمدات کا بل ادا کرنے کے قابل ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
روپے کی قدر میں کمی
پاکستانی کرنسی روپے کے لیے مشکل یہ ہے کہ درآمدات زیادہ، برآمدات کم اور پھر بجٹ میں خسارہ، یہ سب ایسے اسباب ہیں، جو ملکی کرنسی پر دباؤ کی وجہ بنتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت گزشتہ برس دسمبر سے اب تک روپے کی قدر میں چار مرتبہ کمی بھی کر چکی ہے، جس کا نتیجہ افراط زر کی مزید اونچی شرح کی صورت میں نکلا ہے۔
پچھلے پانچ سالوں کی غلطیاں
پاکستان کی گزشتہ منتخب حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کیا کیا غلطیاں کیں، ان کی چند لفظوں میں وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے پچھلے چار پانچ سالوں میں پاگلوں کی طرح نئے قرضے لیے۔ اب ان قرضوں کی واپسی کا وقت ہے۔ لیکن ہمارے پاس اب زر مبادلہ کے اتنے ذخائر تو ہیں نہیں کہ ہم یہ قرضے واپس کر سکیں۔‘‘
حفیظ پاشا کے بقول اربوں ڈالر مالیت یہ قرضے واپس تو کیے ہی جانا ہیں اور پاکستانی ریاست کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان قرضوں کی واپسی ممکن کیسے ہو گی؟
ہر بار آخری لمحے پر آئی ایم ایف سے مدد
پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے اپنے لیے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے 2013ء میں لیے گئے تھے۔ تب اسلام آباد نے اسی طرح کے ایک بحران کو روکنے کے لیے، جس طرح کے بحران کا اب پھر خطرہ ہے، آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ایک مالیاتی مشاورتی فرم ’انسائٹ سکیوریٹیز‘ کے ڈائریکٹر ذیشان افضل کے مطابق، ’’پاکستان کو اس وقت کم از کم بھی 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔‘‘ کئی دیگر ماہرین کے بقول پاکستان اس وقت اپنے لیے جن زیادہ سے زیادہ نئے قرضوں کی امید لگائے بیٹھا ہے، ان کی مالیت قریب 6.5 ارب ڈالر بنتی ہے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔