پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حالیہ ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی جو چھ نشستیں جیتیں، انہیں وہ نہ تو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے انہیں پارلیمان میں کوئی عملی فائدہ حاصل ہونے کا امکان ہے۔
اشتہار
پاکستان میں مروجہ انتخابی قوانین کے مطابق مختلف سیٹوں پر انتخاب جیتنے والا کوئی بھی شخص صرف ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس لیے متعدد نشستوں پر منتخب ہونے والے شخص کو اپنے انتخاب کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر ایک کے علاوہ باقی تمام نشستوں سے دستبردار ہونا ہوتا ہے۔ عمران خان پہلے ہی میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہو کر حلف اٹھا چکے ہیں۔ ابھی ان کا قومی اسمبلی سے دیا جانے والا استعفیٰ بھی منظور نہیں ہوا، اس لیے اس سابق وزیر اعظم کو عملاﹰ قومی اسمبلی کی اپنی حال ہی میں جیتی ہوئی تمام چھ نشستوں سے دستبردار ہونا ہو گا۔
ان کی یہ کامیابی ان کے لیے پارلیمانی سیاست میں بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی۔ البتہ وہ اسے اپنی مقبولیت کا ثبوت بتا کر اور اپنے آپ کو مختلف صوبوں سے کامیابی حاصل کرنے والا قومی سطح کا لیڈر ظاہر کرکے اپنے مخالفین پر اپنی دھاک جمانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
چھ کی چھ نشستوں پر دوبارہ انتخاب؟
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اتوار 16 اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں بیک وقت چھ نشستیں جیت کر اپنا ہی گزشتہ ریکارڈ توڑا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں وہ بیک وقت پانچ نشستوں پر جیت کر پاکستان میں ایک ہی الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں جتنے والے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حال ہی میں عمران خان نے پارلیمنٹ میں نہ جانے کا اشارہ دیا ہے۔اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ یہ چھ کی چھ نشستیں دوبارہ خالی ہو جائیں گی اور الیکشن کمیشن کو ان سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کرانا ہوں گے ۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا عمران خان پھر ان نشستوں پر الیکشن لڑیں گے یا کوئی اور حکمت عملی اختیار کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں تجزیہ نگار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک سے زائد نشستوں پر عام طور پر پارٹی سربراہان اور وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے علاوہ اہم اور بااثر سیاست دانوں کو الیکشن لڑایا جاتا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے غالباﹰ ان کا یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں پارٹی سربراہ ایک سیٹ سے الیکشن ہار کر پارٹی کی انتخابی جیت کی صورت میں کہیں خود ہی آئندہ حکومت سے باہر نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو قومی سطح کا لیڈر ظاہر کرنے کے لیے بھی مختلف صوبوں سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔
بعض اوقات کئی سیاست دان بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے اس لیے الیکشن لڑتے ہیں کہ پارٹی کی انتخابی فتح کے بعد اگر انہیں صوبائی وزارت اعلیٰ کا چانس ملے تو وہ قانوناﹰ یہ عہدہ قبول کر سکتے ہوں، ورنہ وہ اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی میں چلے جاتے ہیں۔
مزمل سہروردی کے نزدیک عمران خان کی حالیہ ضمنی الیکشن میں بیک وقت چھ حلقوں سے جیت بالکل ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ان کے بقول عمران خان نے قومی پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یوں وہ فی الحال تو وزیر اعظم بن نہیں سکتے، تاہم عوامی سیاست کے لیے انہوں نے پھر بھی متعدد سیٹوں پر الیکشن لڑنا مناسب سمجھا۔
اشتہار
وقت اور پیسے کا ضیاع
پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کا آئین کسی بھی شخص کے ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ لیکن ان کے بقول ایک ہی نشست پر بار بار الیکشن کرانے سے قوم کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص الیکشن لڑ کر اپنی سیٹ سے دستبردار ہو جاتا ہے یا پھر حلف اٹھانے سے گریز کرتا ہے، وہ دراصل اس حلقے کے ان ووٹروں کا جمہوری حق ادا نہیں کرتا، جنہوں نے اس پر اعتماد کا اظہار کر کے اسے منتخب کیا ہوتا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
ایک سوال کے جواب میں کنور محمد دلشاد کا کہنا تھا کہ بعض ممالک میں کسی زائد نشست کو خالی کرنے والے سیاست دان کو الیکشن کا سرکاری خرچہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کا کہنا ہے کہ ایک طرف ملک مالی بحرانی حالات کا شکار ہے تو دوسری طرف سیاسی امیدواروں کا بار بار الیکشن لڑکر سرکاری وسائل ضائع کرنا کوئی بہتر طرز عمل نہیں ہے اور اسی لیے اس حوالے سے قانون سازی کیا جانا چاہیے۔
ایک حلقے میں ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے؟
کنور محمد دلشاد کے مطابق حالیہ ضمنی الیکشن پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات کا اندازہ اسی کروڑ روپے کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ اس میں سٹیشنری، ٹرانسپورٹ، عملے کی تربیت اور الیکشن کے لیے عملے کو دیا جانے والا معاوضہ بھی شامل ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے ایک امیدوار عمر خان نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پر مختلف علاقوں میں مختلف خرچ آتا ہے۔ لیکن ان کے بقول قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں عام طور پر پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ آتا ہے۔ ساڑھے تین سو پولنگ سٹیشنوں والے حلقے میں کم از کم ساڑھے تین سو کیمپ لگانا ہوتے ہیں۔ الیکشن کے روز ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ حلقے کی ہر یونین کونسل میں الیکشن دفاتر کھولنا پڑتے ہیں اور وہاں بھی چائے اور کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ایڈورٹائزنگ کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی ٹکٹ کی فیس مانگتی ہیں۔
عمر خان نے بتایا، ''ماضی قریب میں لاہور کے ایک انتخابی حلقے میں دو پراپرٹی والے آمنے سامنے تھے۔ وہاں تاثر یہ ہے کہ صرف اس ایک حلقے میں دونوں امیدواروں نے اپنی اپنی جیب سے پندرہ سے بیس کروڑ روپے فی کس خرچ کیے تھے۔‘‘
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
نا قابل رشک مثالیں
کنور محمد دلشاد بتاتے ہیں کہ چوہدری نثار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو طویل عرصے تک حلف اٹھانے ہی نہیں آئے۔ طویل عرصے بعد انہوں نے حلف اٹھایا تو اس کے بعد بھی کبھی وہ اسمبلی اجلاسوں میں نظر نہیں آئے۔ اسی طرح اسحاق ڈار بھی سینیٹر منتخب ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ ان کو واپس لانے کے لیے ایک آرڈیننس بھی لایا گیا، لیکن وہ بیماری کی آڑ میں واپس آنے کے بجائے لندن ہائی کمیشن میں یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے حلف اٹھانے پر ہی مصر رہے تھے۔ بعدازاں وہ آرڈیننس بھی اپنی مدت پوری ہونے کے بعد غیر مؤثر ہو گیا تھا۔ اہم بات یہ کہ اب اپنے انتخاب کی پارلیمانی مدت تقریباﹰ ختم ہونے کے قریب انہوں نے پاکستان واپسی پر حلف اٹھایا ہے۔
کنور محمد دلشاد کے مطابق اسی طرح یہ بات بھی نامناسب ہے کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑ کر پہلے جیتیں اور پھر ان نشستوں سے دستبردار ہو جائیں۔ خاص بات یہ ہے کہ جمہوری روایات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
مسئلے کا حل کیا؟
سیاسیات کی استاد پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حل تو لسٹ سسٹم رائج کرنے میں ہے۔ ان کی رائے میں ایک بار الیکشن ہو جانے کی صورت میں ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے امیدواروں کے نتائج کو ایک دو تین کی صورت میں جاری کیا جائے۔ پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار کو اسمبلی میں جانا چاہیے اور کسی رکن اسمبلی کے مستعفی ہو جانے، انتقال کر جانے یا نااہل قرار دے دیے جانے کی صورت میں اسی حلقے میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو بقیہ مدت کے لیے پارلیمان کی رکنیت کا موقع ملنا چاہیے۔
ڈاکٹر ریحانہ ہاشمی کے مطابق سیاستدانوں کو دو سے زائد انتخابی حلقوں سے انتخاب لڑنے کی اجازت بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات متعارف کرائی جانا چاہییں۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔