پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنے اولین سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے ہیں۔ وہ پیر کے دن ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کریں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ایرانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی امور پر بات چیت کے علاوہ اور باہمی تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
عمران خان اپنے دو روزہ دورے کے دوران پیر کو ایرانی صدر حسن روحانی سے ملیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ عمران خان اتوار کی شام ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد پہنچے جہاں سے وہ تہران جائیں گے۔
ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی ایرنا کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ ایران سے دونوں ممالک میں باہمی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے رہنما علاقائی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون بڑھانے اور سرحدوں کی بہتر نگرانی کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔
مارچ میں ہی ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ اسلام آباد حکومت ایران مخالف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور مؤثر کارروائی کرے۔ پاکستان سے متصل ایرانی صوبے سستان بلوچستان میں فروری میں ہوئے ایک حملے میں ایران کے انقلانی گارڈز کے ستائیس اہلکار مارے گئے تھے۔
ایران کا الزام ہے کہ اس حملے میں پاکستانی خود کش حملہ آور ملوث تھے۔ تہران کے مطابق ایران مخالف انتہا پسند تنظیم جیش العدل پاکستان میں فعال ہے، جس نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
عمران خان ایک ایسے وقت میں ایران کا دورہ کر رہے ہیں جب حال ہی میں بلوچستان میں ہوئے ایک حملے میں چودہ پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کے دن ہی کہا تھا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ یہ حمہ کرنے والے جنگجو دراصل ایران میں ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔
ایرانی امور پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے اس دورے کے دوران علاقائی سطح پر روایتی حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی ہی کوشش سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کی تھی، جو ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔