عمران خان ترک دارالحکومت انقرہ پہنچ گئے
3 جنوری 2019گزشتہ سال اگست میں پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے عمران خان ایک حکومتی وفد کے ہمراہ ایسے وقت میں ترکی کا دورہ کر رہے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور پا ئیدار تعلقات میں غیر معمولی گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی وجہ پاکستانی سپریم کورٹ کا وہ حالیہ فیصلہ ہے جس میں اس نے امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اس فیصلے میں گولن کی تنظیم کی پاکستان میں ہر طرح کی سر گرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ترکی کی حکومت فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم کو پندرہ جولائی دو ہزار سولہ کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
استنبول میں مقیم پاک ترک تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار یوسف ایرم کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی دونوں اسلامی ممالک کے درمیان انتہائی قریبی برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے یوسف ایرم کا کہنا تھا، ’’ترک حکومت نے دنیا کے مختلف ممالک میں موجود گولن دہشت گرد تنظیم کے ڈھانچے کے خلاف کارروائی کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور بہت سے ممالک نے ترکی کی درخواست پر ایکشن لیا ہے لیکن پاکستان وہ پہلا ملک ہے جہاں کی اعلٰی ترین عدالت نے اس تنظیم کے خلاف کارروا ئی کا حکم دیا ہے۔ اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ترکی کے خدشات کو کتنی سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور اس کے پس منظر میں دونوں ممالک کےگہرے تعلقات ہیں۔‘‘
انقرہ میں قائم پاکستانی سفارت خانے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان جمعہ چار جنوری کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور دیگر اعلٰی حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں خصوصاﹰ دو طرفہ تجارت اور دفاع کے شعبے میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر بات چیت ہو گی۔
سن دوہزار سولہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور ترکی درمیان سالانہ تجارت کا حجم چھ سو پچاس ملین ڈالر ہے۔ دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے اس حجم کو ناکافی قرار دیا جا تا ہے۔ اب دونوں ممالک اس تجارت کو دس ارب امریکی ڈالرز سالانہ تک لے جانے کے خواہشمند ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر بھی بات چیت جاری ہے تاہم اسے ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔
یوسف ایرم کے مطابق عمران خان کے دورے کے دوران دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامت اٹھائے جانے کی توقع ہے: ’’دفاع کا شعبہ ایسا ہے جہاں دونوں ممالک پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ بڑے پیمانے پرتعاون کر رہے ہیں۔ ترکی مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے تیس ’اے ٹی ٹوئٹنی نائن اٹیک‘ ہیلی کاپٹر اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کے حوالے کرے گا جبکہ پاکستان اپنے ہاں تیار کیے گئے مشاق تربیتی طیارے ترکی کو مہیا کرے گا۔‘‘ یوسف ایرم کے مطابق اب دونوں طرف اس تعلق کو دیگر شعبوں میں فروغ دینے پر سنجیدگی پہلے کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
خیال رہے کہ ترکی نے گزشتہ برس پاکستانی بحریہ کی جانب سے دیا گیا چار چھوٹے جنگی جہازوں کی فراہمی کا ایک بین الاقوامی ٹینڈر بھی حاصل کر رکھا ہے۔ اس ٹھیکے کے حصول کو ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی سودا قرار دیا جارہا ہے۔ اس سودے کے تحت ترکی ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کے عوض پاکستان کو چار چھوٹے جنگی بحری جہاز مہیا کرے گا۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اینا دولو کے مطابق عمران خان کی ترک حکام سے ملاقاتوں کے دوران عالمی اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس بارے میں خصوصاﹰ جنگ زدہ ترکی کے پڑوسی ملک شام اور پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بھی ایک دوسرے کو آگاہ کیا جائے گا۔
قبل ازیں پاکستانی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے میں کونیا پہنچنے کے فوراﹰ بعد عمران خان نے اپنے وفد کے ہمرا تیرھویں صدی کے صوفی بزرگ اور شاعر مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر حاضری دی۔