1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے سیاسی بحران پر بھارت میں کیا باتیں ہو رہی ہیں؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
31 مارچ 2022

عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بھارت میں بھی خوب چرچے ہیں اور میڈیا میں بھی بحث جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران کی حکومت رہے یا نہ رہے، دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی امیدیں بہت کم ہیں۔

تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

پاکستان میں عمران خان کی حکومت اس وقت جس سیاسی بحران کا شکار ہے اس پر بھارت میں بھی کافی دلچسپی لی جا رہی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث جاری ہے۔ کونسی پارٹی کس کے ساتھ ہی اور کونسا اتحادی عمران خان سے علیحدگی اختیار کر رہا اور یہ سب کیوں ہو رہا اس کی پل پل کی خبریں بھارت میں نشر کی جا رہی ہیں۔

جمعرات کے روز بیشتر اخبارت میں جہاں عمران خان کی سیاسی تقریر کے حوالے سے بہت سی خبریں شائع ہوئیں وہیں بہت سے میڈیا اداروں کی ویب سائٹس پر یہ بحران شہ سرخیوں میں ہے۔ 

باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا

نئی دہلی میں خارجی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سومیا بندھو اپدھیائے کہتے ہیں کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اچھے ہوں گے یا مزید خراب، ایسی کوئی بھی توقع بے معنی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’بہت واضح ہے کہ اب فوج نے عمران کی حکومت سے منہ پھیر لیا ہے۔ پاکستان کے قیام سے ہی اسٹیبلشمنٹ میں فوج کا کردار سب سے اہم رہا ہے، اس لیے حکومت کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں بندھو اپدھیائے نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا ہے کہ بھارت کو اس سے کچھ امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں پاکستان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت سے کہیں زیادہ آئی ایس آئی اور فوج کا کردار رہتا ہے، ’’اس لیے میری نظر میں اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔‘‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد کوئی نیا حمکراں آتا ہے تو، ’’بظاہر ایسے کچھ اقدامات کا امکان بھی ہے جس سے لگے کہ کوئی تبدلی آ رہی ہے تاہم یہ کوئی دیرپا بات نہیں ہو گی، بلکہ دکھانے کے لیے ہو گی۔‘‘

تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پالیسی فوج کے ہاتھ میں

کئی کتابوں کے مصنف اور جنوبی ایشیائی امور کے معروف تجزیہ کار کلول بھٹا چاریہ بھی اس سے متفق ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سکیورٹی کی ذمہ داری اور اس کی پالیسی فوج کے ہاتھ میں ہوتی ہے،’’چونکہ بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت ہو نہیں رہی ہے اس لیے باہمی تعلقات میں کسی بھی اہم پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔‘‘

تاہم وہ کہتے ہیں، ’’اتنا ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو سفارتی تعلقات بہت ہی نچلی سطح پر ہیں، اس میں کچھ بہتری لائی جائے یا پھر ایک دوسرے کے ہائی کمشنر دہلی اور اسلام آباد میں پھر بحال ہو سکتے ہیں۔‘‘

مسئلہ کشمیر کے حل تک دونوں دوست نہیں بن سکتے

سومیا بندھو اپادھیائے نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا ان فنشڈ ایجنڈا ہے اور، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اسی طرح کے رہیں گے، ’’جب تک مسئلہ کشمیر اسی طرح برقرار رہتا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ کشمیر حل کیے بغیر بھارت اور پاکستان کبھی دوست بن سکتے ہیں۔‘‘ 

کلول بھٹا چاریہ بھی اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر  پر جب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوتی اس وقت تک باہمی تعلقات میں بہتری کا امکان بہت کم ہے۔ 

لیکن اس سے متعلق وہ ایک نئے پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، ’’بھارت جب تک کشمیر کے معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھاتا اس وقت بہت مشکل ہے۔ پاکستان تو چاہتا ہے کہ بھارت اس معاملے میں کوئی پہل کرے، تاہم اس وقت بھارت کرے گا نہیں۔ کشمیر پر پاکستان کی اپنی حدود قیود ہیں اور جب تک بھارت کوئی نرمی نہیں دکھاتا تب تک پاکستان اس مسئلے پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ 

تصویر: Carl Court/AFP

 عمران خان کا سیاسی مستقبل

کلول بھٹا چاریہ کہتے ہیں پاکستان میں جب بھی اس طرح کی کوئی سیاسی ہلچل ہوتی ہے تو سب کو معلوم ہے کہ در پردہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہوتا ہے،’’اس کے بغیر یہ تحریک ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے حکومت وقت کے لیے اشارہ اور پیغام ہوتا ہے کہ آپ کو جو عسکری قیادت کی حمایت حاصل تھی وہ واپس لے لی گئی ہے۔ اب اگر آپ میں سیاسی قوت ہے تو آپ خود حکومت کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کی شناخت یہ رہی ہے کہ وہ فوج کے سہارے ہی چلتی ہے، ’’عمران خان کے خلاف ابھی جو تحریک ہے اس کی کامیابی کا مطلب عسکری قیادت کی جیت ہے۔ اس سے عمران خان کی سیاست کے دور کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوتی ہے تو فوج کی حمایت نہ ملنے سے حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ عمران کو یہ پیغام مل چکا ہے کہ اب وہ فوج کے بغیر تن تنہا ہیں، ’’اس سے ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔ بہتر یہ ہو گا کہ وہ فوری طور پر انتخابات کی کال دیں اور کہیں کہ عوام فیصلہ کرے گی۔‘‘

بھارت میں ویسے بھی کوئی بھی انتخاب ہو یا پھر کسی بھی طرح کا بحران پاکستان کا نام کسی نہ کسی صورت سے سامنے آتا ہی رہتا ہے اور حکومتیں کئی بار اسے اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ تاہم اس سیاسی گہما گہمی پر اب تک حکومت پوری طرح سے خاموش ہے۔ 

دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے تعلقات کشیدہ ہیں اور اس حوالے سے بھارت میں سب سے اہم موضوع یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے حالات میں بہتری آ سکتی ہے یا پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا یہ بھارت کے مفاد میں ہے یا پھر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

’خان صاحب اجازت ہو تو اب گھبرا لیں؟‘

01:41

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں