1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی قید تنہائی اور سوشل میڈیا پر احتجاج

27 نومبر 2025

جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان سے ملاقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تین ہفتوں سے زائد عرصے سے انہیں اپنے اہل خانہ اور وکلاء سے ملنے نہیں دیا جا رہا، جس سے ان کی صحت کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک جیل افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی صحت بالکل ٹھیک ہے اور انہیں کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک جیل افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی صحت بالکل ٹھیک ہے اور انہیں کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

عمران خان اگست 2023ء سے جیل میں ہیں، جہاں وہ کرپشن کے ایک مقدمے میں 14 سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان پر درجنوں مقدمات درج ہیں، جنہیں وہ سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ فوج نے انہیں سیاست سے دور رکھنے کے لیے یہ مقدمات بنوائے ہیں۔ فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان ذوالفقار بخاری نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ چار نومبر کے بعد سے کسی کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود عمران خان کو ملاقاتوں اور طبی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

بخاری نے کہا، ”ان کی صحت ہماری تشویش ہے۔ ہم ان کی غیر قانونی تنہائی پر پریشان ہیں۔" انہوں نے حکومت سے فوری طور پر عمران خان کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔

عمران خان کہاں ہیں؟

گزشتہ کچھ روز سے خان کے اہل خانہ اور کارکن راولپنڈی کی ایڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بخاری کے مطابق جمعرات کو ایک بار پھر جیل کا گھیراؤ کیا جائے گا۔

عمران خان 2018ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور 2022ء میں پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ سے ہٹائے گئے، جب ان کے فوجی جنرلوں سے تعلقات خراب ہو گئےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

جماعت کا کہنا ہے کہ جیل قواعد کے تحت عمران خان کو ہفتے میں کم از کم ایک بار باہر کے لوگوں سے ملنے کی اجازت ہے، مگر جیل انتظامیہ ایسا کرنے سے روک سکتی ہے۔ ماضی میں بھی کئی کئی ہفتوں تک ملاقاتیں روکی گئیں۔

خیبر پختونخوا میں نئی قیادت، پی ٹی آئی کے لیے کیا بدلے گا؟

مقامی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ 73 سالہ سابق کرکٹر کو زیادہ سخت سکیورٹی والی جیل میں منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ ملاقاتیں مزید مشکل ہو جائیں۔

عمران خان کا معاملہ سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے اور جمعرات کو #WhereIsImranKhan ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔

وزارت داخلہ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کی طرف سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

ذوالفقار بخاری نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ چار نومبر کے بعد سے کسی کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی گئی ہےتصویر: DW

 عمران خان کی صحت اچھی ہے، جیل حکام

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک جیل افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی صحت بالکل ٹھیک ہے اور انہیں کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ افسر نے کہا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

عمران خان 2018ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور 2022ء میں پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ سے ہٹائے گئے، جب ان کے فوجی جنرلوں سے تعلقات خراب ہو گئے۔ 240 ملین کی آبادی والے اس اسلامی ملک میں فوج کا حکومت بنانے اور گرانے میں اہم کردار رہا ہے۔

مئی 2023ء میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں فوج مخالف مظاہرے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔

2024ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری لیکن جماعت کا دعویٰ ہے کہ دھاندلی کی وجہ سے ان سے مزید نشستیں چھینی گئیں تاکہ وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت بن سکے۔ شہباز شریف اور ان کے اتحادی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ادارت: شکور رحیم

 

نیوز ایجنسیاں اس رپورٹ کا زیادہ تر مواد مختلف نیوز ایجنسیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں