عمران خان نا اہل: تبصروں، بیانات اور ردعمل کا سلسلہ شروع
عبدالستار، اسلام آباد
21 اکتوبر 2022
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا ہے اور ان کی نشست کو خالی قرار دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ ای سی پی کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے کیونکہ وہ کرپٹ پریکٹس میں ملوث رہے ہیں۔ یہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کے پانچ میں سے چار ارکان موجود تھے۔ ای سی پی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے رکن بابر حسن بھروانہ چھٹی پر ہیں تاہم انہوں نے اس فیصلے کی تائید کی ہے۔
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک طوفان شروع ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے کچھ ٹرینڈز بھی شروع ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا شروع کردیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ فیصلے کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج شروع ہوگا۔
اس فیصلے کے بعد کچھ قانونی حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ آیا عمران خان قانونی طور پر اپنی پارٹی کی قیادت بھی کر سکیں گے یا نہیں کیونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی نا اہلی کے بعد پارٹی قیادت نہیں سنھبال پائے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ردعمل
ن لیگ اور حکومتی جماعتیں اسے قانون اور آئین کے مطابق دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا، ''وہ پاکستان کا پہلا سرٹیفائیڈ جھوٹا اور سند یافتہ چور ہے جو چوری کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ نا اہل ہوا۔ میاں بیوی نے مل کر قومی خزانے کو لوٹا۔ اس کو گرفتار کر کے قانون کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ جتنی بڑی چوری ہے، اس کو صرف ناہلی پر ختم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ عمران خان
عوامی نیشنل پارٹی نے اس کو مکافات عمل قرار دیا۔ جب کہ پی ٹی آئی اس پر چراغ پا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے اور اسے ملک، آئین اور عوام کے خلاف قرار دیا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
خیبر پختونخواہ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ ن کے رہنما اقبال ظفر جھگڑا کا دعویٰ ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ قانون اور آئین کے مطابق ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عمران خان کے خلاف آئین کی شقوں کے تحت فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے اور کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ وہ کرپٹ پریکٹس میں ملوث تھے اور اس کے ثبوت ای سی پی کے پاس تھے۔ تو فیصلہ کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔‘‘
کئی مبصرین کا خدشہ ہے کہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں اس فیصلے کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے لیکن جھگڑا اس سے اتفاق نہیں کرتے: ''عمران خان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور مضبوط شواہد تھے۔ ای سی پی مستقبل میں کیسے کسی کو بغیر ثبوت کے نا اہل قرار دے سکتی۔ میرا خیال نہیں کہ ایسا ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ اس کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کر سکے گی۔‘‘
اشتہار
’عمران خان کی شہرت میں اضافہ ہوگا‘
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہاس فیصلے سے عمران خان کو فائدہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اس سے عمران خان کو فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے اس سے عمران خان کو مزید شہرت ملے گی اور ان کے کارکنان اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو یہ ثابت کرنے پڑے گا کہ وہ ایک امتحان سے دوچار ہوگئے ہیں اور یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس سے کیسے نبردآزما ہوں گے۔‘‘
’نواز، امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کا فرمائشی پروگرام‘
پی ٹی آئی اس فیصلے کو مختلف شخصیات اور عناصر کی سازش قرار دے رہی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈز سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک فرمائشی پروگرام ہے، جس کا مطالبہ تین عناصر کی طرف سے کیا گیا۔ انہوں نے ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا خیال ہے کہ یہ امریکہ، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا فرمائشی پروگرام ہے، جس کی وجہ سے عمران خان کو نا اہل قرار دیا گیا۔ اس سے ملک کے اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور ملک انارکی کی طرف جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اس فیصلے کو عدالت میں بھی چیلنج کرے گی اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کرے گی۔‘‘
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
’عمران اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا‘
سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کو اس نا اہلی پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا ہے۔ سیاست دانوں کو اس فیصلے پر خوشی منانے کی بجائے، آئین اور قانون کو اصل معنوں میں بحال کرنا چاہیے۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل قرار نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ اس کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلانا چاہیے۔ اب اس فیصلے کو عمران خان اپنے لیے استعمال کرے گا اور شہید بننے کی کوشش کرے گا۔‘‘