1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب

9 اپریل 2022

پاکستان میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اب ملکی وزیر اعظم نہیں رہے۔ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ایک سو چوہتر ارکان نے رائے دی اور قرارداد اکثریتی رائے سے منظور کر لی گئی۔

تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خانتصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایاز صادق نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان مقامی وقت کے مطابق تقریباﹰ رات ایک بجے کیا۔ قومی اسمبلی میں جب اس قرارداد پر ووٹنگ شروع ہوئی، تو تقریباﹰ اسی وقت عمران خان، جو ایوان میں موجود نہیں تھے، وزیر اعظم ہاؤس سے بذریعہ ہیلی کاپٹر رخصت ہو کر واپس بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور ملک کے متوقع طور پر آئندہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان سے خطاب کیا اور ارکان کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی پارلیمانی تحریک کا کامیاب بنایا۔

شہباز شریف کے خطاب کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایوان سے خطاب کیا۔

دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہوئی


آج ہفتے کے روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرائی جانا تھی، مگر پارلیمانی کارروائی میں ایک سے زائد مرتبہ وقفوں کے باوجود چند حکومتی اور اپوزیشن ارکان پارلیمان نے ایوان سے خطاب تو کیا، تاہم اسپیکر اسد قیصر نے رات ساڑھے دس بجے تک تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کرائی۔

جنرل باجوہ کی عمران خان سے ملاقات

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کی رات پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ذاتی طور پر ایک بار پھر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا پس منظر وہی سیاسی اور پارلیمانی جمود تھا، جو سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرائے جانے کے باعث پایا جا رہا تھا۔ جنرل باجوہ کی ملکی وزیر اعظم سے اس ملاقات کی اطلاع پاکستانی میڈیا نے بھی دی تاہم آرمی چیف باجوہ کی وزیر اعظم عمران خان سے اس ملاقات کے بارے میں خود فوج کی طرف سے باقاعدہ طور پر کوئی بیان جاری نہ کیا گیا۔


مبینہ خط جزوی طور پر ڈی کلاسیفائی کرنے کی خواہش


قبل ازیں ہفتے کے روز کئی گھنٹوں تک جب قومی اسمبلی کا اجلاس تو جاری رہا، مگر اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کرائی گئی، تو ساتھ ہی ملکی میڈیا کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ عمران خان نے وفاقی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس ہفتے کی رات نو بجے طلب کر لیا تھا۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس اجلاس میں عمران خان نے کابینہ کے ارکان سے اس بات کی منظوری لی کہ وہ سربراہ حکومت کے طور پر اپنے خلاف مبینہ بیرونی سازش کے سلسلے میں لکھا گیا سفارتی مراسلہ قومی اسمبلی کے اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھا سکتے ہیں۔


عمران خان کی قومی اسمبلی میں آمد


مبینہ سفارتی مراسلے سے متعلق اس متفقہ فیصلے کے بعد وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ختم ہو گیا اور وزیر اعظم عمران خان، جو سارا دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے، پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کی تیاری کرنے لگے۔ بعد میں یہ رپورٹیں بھی ملیں کہ عمران خان نے قومی اسمبلی پہنچ کر اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر اپنے خلاف بیرونی سازش سے متعلق مراسلہ قومی اسمبلی کو اسپیکر کو دکھایا۔


نئے آرمی چیف کی تقرری کی افواہ


پاکستان خاص کر اسلام آباد میں نو اپریل کا دن سیاسی طور پر اس قدر بے یقینی اور ابہام کا شکار اور مختلف افواہوں سے لبریز رہا کہ چند حلقوں، خاص کر سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ عمران خان مبینہ طور پر کچھ ہی دیر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ ایک نیا آرمی چیف تعینات کرنے والے ہیں۔ ان خبروں کی تردید بعد ازاں خود وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کی اور کہا کہ یہ بالکل غلط، بے بنیاد اور من گھڑت افواہیں ہیں کہ حکومت ملکی فوج کا کوئی نیا سربراہ مقرر کرنا چاہتی ہے یا ایسا کرنے کے بارے سوچ بھی رہی ہے۔


اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی کھول دی گئیں


ہفتے کو دن کے دوران پیش آنے والے واقعات کے پیش نظر یہ بات افطار کے کچھ دیر بعد تک واضح ہو چکی تھی کہ سپریم کورٹ کی انتظامیہ نے اس ادارے کے عملے کو عدالت عظمیٰ کے دورازے کھول دینے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے بھی کھول دیے گئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کارروائی کے دوران تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں کرائی گئی تھی اور ضرورت پڑنے پر اعلیٰ عدلیہ اس امر کا نوٹس لے سکتی۔ اس پس منظر میں چیف جسٹس بندیال بھی خود رات بارہ بجے سے پہلے ہی ذاتی طور پر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ اسی دوران نصف شب سے پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری نہ کروانے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی جمع کرا دی گئی۔


تمام ہوائی اڈوں پر الرٹ


پاکستانی دارالحکومت میں آج ہفتے کو، خاص کر رات گئے پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں سکیورٹی انتظامات نہ صرف انتہائی سخت کر دیے گئے بلکہ تمام پولیس اہلکاروں اور انتظامی افسران کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئیں اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو بھی ہائی الرٹ پر کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے تمام ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔


پارلیمان کے باہر قیدیوں کی وین


ہفتے کی رات جب وزیر اعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں، اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت کے باہر پولیس ایک ایسی وین بھی مسلسل کھڑی رہی، جس میں عام طور پر قیدیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کا میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکام نے جواز یہ بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں کوئی ممکنہ حکم جاری کیا، تو اس وین میں گرفتار کیے جانے والے افراد کو بٹھا کر وہاں سے منتقل کیا جا سکتا تھا۔


اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر مستعفی


ہفتے کی رات نصف شب سے تقریباﹰ بیس منٹ قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے قریبی حلقوں نے میڈیا سے گفتگو میں تصدیق کی کہ یہ دونوں شخصیات اپنے پارلیمانی عہدوں سے مستعفی ہو گئی ہیں۔ ان کے استعفوں کی پاکستانی اپوزیشن کے رہنماؤں نے بھی تصدیق کر دی ہے اور ملک کے نجی ٹیلی وژن اداروں کی لائیو نشریات میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر دونوں ہی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان استعفوں کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ اسد قیصر اور قاسم سوری قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹنگ نہیں کرانا چاہتے تھے۔


اسپیکر کا ایوان میں دوران اجلاس مستعفی ہونے کا اعلان


قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے رات نصف شب کے قریب ایوان میں موجود ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے ہیں اور انہیں کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد جو مراسلہ دکھایا گیا ہے، وہ اس کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی دکھائیں گے۔


اجلاس کی صدارت ایاز صادق کے حوالے


اسپیکر اسد قیصر نے اپنے مستعفی ہونے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی پروگرام کے مطابق باقی ماندہ کارروائی کی تکمیل کے لیے اسمبلی کے پینل آف چیئرمین کے رکن ایاز صادق کے حوالے کرتے ہیں۔ ایاز صادق نے پارلیمانی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپوزیشن رہنما شہباز شریف کی طرف سے پیش کردہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایاز صادق نے ارکان پر واضح کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا پارلیمانی طریقہ کار کیا ہو گا۔

م م / ع ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں