عمران خان پر استعفے کے لئے دباؤ
31 مارچ 2022واضح رہے کہ آج پاکستان کے معروف چینل جیو نیوز نے اپنی ایک خبر میں ذرائع کے حوالے سے یہ بتایا کہ ایک اہم شخصیت نے قائد حزب اختلاف سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ عمران خان محفوظ راستہ چاہتے ہیں اور یہ کہ وزیر اعظم کا مطالبہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے اور اس صورت میں وہ اسمبلیوں کو تحلیل کردیں گے۔ اس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید وزیراعظم عمران خان استعفی دے کر کہیں جارہے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہبازگل نے اس بات کی سختی سے تردید کی۔
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما علی امین گنڈا پور نے ڈی ڈبلیو کے اس سوال پر کہ کیا وزیر اعظم اسمبلی تحلیل کرنے پر راضی ہوگئے ہیں کہا کہ یہ غلط خبر ہے۔
عمران خان جائیں گے یا رہیں گے؟ بھارتی ماہرین کیا کہتے ہیں
آج شہباز شریف کی رہائش گاہ پر متحدہ اپوزیشن کا ایک اجلاس ہوا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں سرکاری حکام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات کو نہ مانیں وگرنہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
منحرفین کے لیے اظہار وجوہ کے نوٹس
پی ٹی آئی کی طرف سے منحرفین کے لیے اظہار وجوہ کے نوٹسسز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کا حوالہ دیا گیا ہے اور انہیں یکم اپریل دن 12 بجے تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ ان نوٹسسز کا جواب دیں۔ منحرفین کومتنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ان کی پوزیشن اس وقت تک واضح نہیں ہوئی تو ان کے خلاف ریفرنسسز اسپیکر کو بھجوا دیئے جائیں گے۔ ان نوٹس میں کہا گیا کہ سپیکر سے درخواست کی جائے گی کہ وہ سب منحرفین کے نشست کو خالی قرار دے دیں۔
استعفی کا مطالبہ
مضبوط تاثر کے باوجود ملک کے کئی حلقوں میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اکثریت کھو چکے ہیں، اس لئے وہ فوری طور پر استعفیٰ دیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کسی بھی مضبوط جمہوریت میں جب وزیر اعظم یا سربراہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اکثریت کھو چکا ہے تو فوری طور پر استعفیٰ دے دیتا ہے، پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں کمزور ہیں اس لئے یہاں وزیراعظم ڈھٹائی سے بیٹھا ہوا ہے، اس کو پتہ ہے کہ وہ اکثریت کھو چکا ہے، اس کے باوجود وہ استعفیٰ نہیں دے رہا، جس سے پورے ملک میں ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
تحریک عدم اعتماد: عمران خان کا مستقبل خطرے میں
استعفی نہیں دینا چاہیے
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ جب تک پارلیمنٹ میں فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہیں اور ان کو استعفٰی نہیں دینا چاہیے۔ تجزیہ نگار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے، '' بظاہر لگ رہا ہے کہ ایوان میں حزب اختلاف کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے لیکن جب آئین نے ایک طریقہ کار تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دیا ہے تو اس طریق کار کو پورا ہونے دیا جائے، ملک میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ منحرفین پی ٹی آئی کے پاس دوبارہ واپس آ جائے اور حکومت اکثریت حاصل کرلے، تو تحریک عدم اعتماد کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘
نمبر پورے کریں
پی ٹی آئی حزب اختلاف کے اس مطالبے پر چراغ پا نظر آتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ حزب اختلاف غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اسی لیے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کن بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیا وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کا نعرہ لگایا، انہوں نے امریکہ کو اڈے دینے سے صاف انکار کیا، یورپی یونین کو ملکی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے خبردار کیا، ملک کو ایک آزاد خارجہ پالیسی دی، ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایکسپورٹ ریکارڈ تعداد میں ہوئی، ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ریمیٹینسز آئے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس پہ شور مچانے کے بجائے ایوان میں اپنے نمبر پورے کرے جو قانونی اور آئینی طریقہ ہے، عمران خان آخری حد تک اور آخری گیند تک کھیلے گا۔‘‘