مظفر آباد میں وزیراعظم عمران خان کے جلسہ عام پر متنازعہ علاقے کو خود مختاری دینے کے حامی قوم پرست کشمیری چراغ پا ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اس طرح کے جلسے کر کے حق خود ارادیت کی تحریک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
اشتہار
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے آج کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظفر آباد میں ایک جلسے سے خطاب کیا، جس پر پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر میں قوم پرست سیاسی جماعتیں شدید تنقید کر رہی ہیں۔ قوم پرست جماعتوں کے حامیوں نے آج مظفر آباد میں عمران خان کے جلسے گاہ سے دور مظاہرے کرنے کی بھی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق اس کوشش پر کچھ سیاسی کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ مظاہرے کی کوشش کرنے والی جماعتیں کشمیر کی خودمختاری کا پرچار کرتی ہیں۔ خودمختاری کے اس مقصد کو مزید بڑھانے کے لیے بارہ سے زائد کشمیری قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں کا ایک اتحاد پیپلز نیشل الائنس کے نام سے بھی حال ہی میں بنا ہے، جو الحاق کا موقف رکھنے والی جماعتوں کے سخت مخالف ہے۔
اس اتحاد کے مرکزی ترجمان میر افضال سہلریا نے عمران خ٘ان کے جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ جلسہ کشمیریوں سے یکجہتی کے نام پر ایک مذاق ہے، جو کام مودی نے ابھی کیا وہ پاکستان نے گلگت بلتستان میں اسِٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کر کے بہت پہلے کیا اور وہاں غیر مقامی افراد کو جائیداد خریدنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دی۔ عمران خان جلسہ کر کے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کشمیری الحاق پاکستان کے حامی ہیں لیکن کشمیریوں کی جو جدوجہد ہے وہ حق خود ارادیت کے لیے ہے۔ یہ الحاق پاکستان کی لڑائی نہیں بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کی خودمختاری کی لڑائی ہے۔ اس جلسے سے عمران خان مودی کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ نئی دہلی اٹوٹ انگ کی رٹ لگائے رکھے اور پاکستان الحاق کا راگ الاپتا رہے گا۔"
واضح رہے کہ پاکستان کے زیر اتنطام کشمیر میں تقریباً تمام قومی دھارے کی جماعتیں بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں کا پاکستان سے الحاق چاہتی ہیں لیکن کشمیری قوم پرست جماعتیں نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کو قابض سمجھتی ہیں اور وہ ایک خود مختار کشمیر پر یقین رکھتی ہیں، جو نہ بھارت کا حصہ ہو اور نہ پاکستان کا۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی جہاد یا پراکسی وار کے ذریعے حل نہیں ہو گا،"ہمارے خیال میں بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کو آگے آنا چاہیے اور اس جنجگوآنہ صورتحال سے خطے کو نکالنا چاہیے اور وہ اسی صورت ممکن ہے جب کشمیر کو خود مختار بنایا جائے اور بھارت اور پاکستان کشمیر کے نام پر جو اربوں ڈالرز خرچ کر رہے ہیں وہ اپنی عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے لگائیں۔"
باغ سے تعلق رکھنے والے یونائیڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریڑی سردار اشتیاق حسین کا کہنا ہے، ''اگر ہم آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے سے نہیں روک سکتے تو پھر بھارت کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کشمیر میں سیاست کرنے سے روکے۔
انہوں نے عمران خان کے جلسے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " عمران خان کے جلسے کا مقصد کشمیر کی تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور عوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔ وہ امریکا میں کشمیر کو سودا کر کے آ گیا ہے۔ اسی لیے مودی نے یہ اقدام اٹھایا اور یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ نعرے کل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان کے سیاست دانوں نے لگائے ہیں۔ تو یہ جلسہ کشمیر کی تقسیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن کشمیری کبھی بھی اپنے خطے کی تقسیم برداشت نہیں کریں گے۔"
سردار اشتیاق حسین کا کہنا تھا کہ عمران خان اور پاکستان کے دوسرے سیاست دان الحاق کی سیاست کرتے ہیں اور کشمیریوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں، "ہم عمران خان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اس نظریے کو نہیں مانتے۔ ہمارے لیے کشمیر ایک جغرافیائی وحدت ہے اور اس میں رہنے والے مسلمان، ہندو، بدھ مت والے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو برابر کا حق حاصل ہے۔ ہم کشمیر کی تقسیم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔"
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت یا فرد اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتے جب تک وہ الحاق پاکستان کا حلف نامہ نہ جمع کرائیں۔ افسر شاہی اور دوسرے اہم اداروں کے لوگوں کو بھی یہ حلف نامہ جمع کرانا پڑتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی قوم پرست جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ الحاق اس فلسفے کے سخت خلاف ہے اور اسی لیے یہ انتخابی سیاست سے دور بھی رہتی ہے۔
کشمیر میں خاردار تاریں، چیک پوسٹیں اور ووٹنگ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر گزشتہ دو دہائیوں سے تنازعے میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ ان دنوں بھارت بھر میں انتخابات کا چرچا ہے، لیکن کشمیر کے عوام تیس اپریل کو ووٹنگ کے دن کچھ خاص پرجوش دکھائی نہ دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
سخت سکیورٹی
بھارت میں پولنگ کے ساتویں مرحلے میں کشمیر میں بھی ووٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر وہاں سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ پولیس نے پولنگ کے عمل میں خلل سے بچنے کے لیے چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ بہت سے لوگوں نے مسلمان علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبات اور پرتشدد کارروائیوں کے خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہ کیا۔ اس باعث ٹرن آؤٹ صرف 25.6 فیصد رہا۔
تصویر: Bijoyeta Das
فیصلہ اپنا اپنا
اس کے باوجود کچھ کشمیریوں نے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصویر سری نگر کی ہے جہاں ایک بزرگ شہری ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی انگلی پر لگا سیاہی کا نشان دکھا رہے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
جوش و جذبے سے عاری
اپوزیشن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے حامی ووٹ ڈالنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن سری نگر میں پولنگ کے موقع پر مجموعی طور پر بھارت کے دیگر علاقوں جیسا جوش و جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ویران گلیاں
ووٹنگ کے دن سری نگر کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔ تیس اپریل کو بیشتر دکانیں بند رہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پر نہیں تھی۔ ریاستی دارالحکومت میں کرفیو کا سا سماں تھا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ووٹر کم، فوجی زیادہ
کشمیر کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سری نگر میں ٹرن آؤٹ کافی کم رہا۔ اس پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد ووٹروں سے زیادہ تھی۔
تصویر: Bijoyeta Das
پہلے استصوابِ رائے
متعدد کشمیری علیحدگی پسند گروپوں نے پولنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ سری نگر میں متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے لیے استصوابِ رائے چاہتے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ بھارت کے خلاف نعرے بھی دکھائی دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
بے نیازی
سری نگر میں بچوں نے ہڑتال کے باعث اسکول بند ہونے کا خوب مزا لیا۔ وہ اپنے شہر اور ریاست میں پولنگ سے بے نیاز رہے اور انہوں نے عام پر طور پر مصروف رہنے والی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی۔
تصویر: Bijoyeta Das
7 تصاویر1 | 7
سیاسی مبصرین کے خیال میں اس جماعت کے مرحوم رہنما مقبول بٹ کو پاکستان اور بھارت کے زیر اتنظام کشمیر میں سب سے مشہور اور قابل احترام رہنما سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی اس قوم پرست جماعت کے ڈپٹی سیکرِٹری جنرل ساجد صدیقی کا دعوٰی ہے کہ عمران خان کے جلسے اور الحاق کی باتوں سے مودی کو فائدہ ہو گا، "یہاں ہر پاکستانی سیاست دان الحاق کی بات کر رہا ہے۔ پاکستان کی آرمی نے چھ ستمبر کو الحاق کا دن منایا اور آج عمران خان بھی جلسے کر کے الحاق کے بیانیے کو مضبوط کر رہے ہیں۔ گو کہ انہوں نے حق کودارادیت کی بات کی ہے لیکن در حقیقت کو وہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے حامی ہے، جو الحاق کی وکالت کرتا ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کی قرار داد نے جو حق خو د ارادیت کا حق دیا ہے، بات صرف اس پر ہونی چاہیے۔ کشمیر کا فیصلہ پاکستان، بھارت یا کسی اور کو نہیں کرنا بلکہ خود کشمیریوں کو کرنا ہے۔ لہذا پاکستان بھی ہماری جان چھوڑے اور بھارت بھی اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کرے اور ہمیں اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔"
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔