1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا سیاسی زوال، مسئلہ خارجہ پالیسی یا داخلہ

11 اپریل 2022

جیسے بھی لیکن متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کو اقتدار سے الگ تو کر دیا لیکن پاکستان کے سیاسی و اقتصادی مسائل ختم ہونے کی کوئی فوری تدبیر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

عاطف بلوچ کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کو اقتدار سے الگ تو کر دیا لیکن پاکستان کے سیاسی و اقتصادی مسائل ختم ہونے کی کوئی فوری تدبیر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔تصویر: DW/P. Henriksen

پاکستان کا سب بڑا مسئلہ اقتصادی نوعیت کا ہے، جو پیچیدہ تاگوں میں لپٹا ہوا ہے۔ ایک تانا دوسرے سے الجھا ہوا ہے اور ان کو سلجھائے بغیر تیسرے کی جانب بڑھنا نہ صرف غیر منطقی ہو گا بلکہ اس سے مسائل مزید بڑھ بھی جائیں گے۔ کوئی فرد واحد پاکستان جیسے ملک کے اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔ عمران خان بھی نہیں۔

عمران خان تاہم بضد ہیں کہ صرف وہی پاکستان کو ایک ایسی عظیم الشان ریاست میں بدل سکتے ہیں، جو ریاست مدینہ کی مثال ہو گی۔ وہ اس بات کو بھول گئے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کی خاطر جن الیکٹیبلز کا سہارا لیا تھا، ان کا مقصد تو ہمیشہ صرف اپنا مالی و سیاسی مستقبل محفوظ بنانا تھا۔ ابھی تو عمران خان کے ایسے مزید ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

عمران خان کے سیاسی زوال کی ایک وجہ فوج کے ساتھ ان کے اختلافات بھی بنے۔ وہ لفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا معاملہ ہو یا روس کی یوکرین پر جارحیت کا۔ عمران خان اور فوج کے مابین براہ راست تو کوئی بیان بازی نہیں ہوئی لیکن اشارے کنائے سبھی جانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جب بھی عمران خان آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ فوج سے اختلاف کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے کوئی اور ملکی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرے۔ تاہم پاکستان جیسے ملک میں یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

دراصل عمران خان کی حکومت کی ناکامی ایسے اقتصادی مسائل ہیں، جو داخلہ امور سے جڑے ہوئے ہیں۔ کووڈ کی عالمی وبا نے بین الاقوامی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، جس کے اثرات پاکستان پر پڑنا بھی لازمی تھے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی انتظامی نا اہلی کی وجہ سے غریب طبقے کو کڑا وقت دیکھنا پڑا۔ مہنگائی نے تحریک انصاف کے حامیوں کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔

پاکستان کے دیگر وزرائے اعظم کی طرح عمران خان کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ملکی خارجہ پالیسی کا تعین کریں لیکن موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں شاید انہیں پہلے داخلی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ 

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کے خلاف ہونے کی کیا قیمت چکانا پڑ سکتی ہے، بے شک کوئی وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ عمران خان ایسے پہلے وزیر اعظم نہیں بلکہ ابھی تک کوئی بھی پاکستانی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا ہے۔

عمران خان اقتدار میں آئے بھی عوامیت پسندی کے نعروں کے ساتھ تھے اور اب ایک مرتبہ پھر خارجہ پالیسی کے معاملے پر 'امریکا دشمنی‘ کا بیانیہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی ہیرو بننا چاہتے ہیں۔

اپنی سیاسی کمزوریوں کو چھپاتے ہوئے اب وہ ‘عالمی سازش‘ پر عوامی حمایت بٹورنے کی کوشش میں بھی ہیں۔ اس میں وہ کامیاب بھی رہیں گے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایشو دیرپا نہیں ہو گا بلکہ ہو گا وہ، جو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔ میرے خیال میں تو نواز شریف کی طرح عمران خان نے بھی اپنے سیاسی زوال کا راستہ خود ہی چنا ہے۔ 

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں