1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا قوم سے خطاب: 'آخری دم تک مقابلہ کروں گا‘

شمشیر حیدر
31 مارچ 2022

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے دوران قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے اور آخری وقت تک مقابلہ کریں گے۔

 Imran Khan
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

پاکستانی وزیر اعظم نے قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں قوم کے مستقبل پر بات کرنا ہے اور اس وقت ملک کے سامنے دو راستے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت ایک فیصلہ کن مرحلے کا سامنا ہے۔ انہوں نے حسب سابق پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اپنے سیاست میں آنے کی وجوہات کا ذکر کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی سفیر کے ساتھ غیر ملکی عہدیداروں کی گفتگو سے متعلق مراسلے کا ذکر کیا۔ اس دوران انہوں نے امریکہ کا نام بھی لے دیا لیکن پھر فوری طور پر غلطی کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے 'غیر ملکی‘ کا لفظ استعمال کیا۔

پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مذکورہ ملک پاکستان کی خارجہ پالیسی سے ناراض ہے اور سمجھتا ہے کہ خارجہ پالیسی عمران خان کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ مراسلے کے بارے میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی عہدیدار نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پاکستان کی غلطیاں معاف کر دی جائیں گی۔

عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور اس دوران پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کا ذکر بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتیں امریکہ کی ناراضی مول نہ لینے کی خاطر ایسے حملوں پر چپ رہیں جن میں کئی عام شہری بھی مارے گئے تھے۔

اپنی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ جنگ کی بجائے امن میں شراکت دار بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ملک کے خلاف نہیں لیکن پاکستان کو کسی جنگ میں شامل نہیں کرنا چاہتے۔ عمران خان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مشکلات اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

دیگر سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہیں 'قطعی نہیں‘ کہنے پر تنقید کا نشانہ بنانے والے کبھی ڈرون حملوں کے خلاف نہیں بولے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں اس لیے وہ 'قطعی نہیں‘ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اتوار کے روز ووٹنگ ہو گی اور پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ کیا قوم تیس برس سے برسر اقتدار ایسے سیاست دانوں کو واپس لانا چاہتی ہے جن پر بدعنوانی کے مقدمات ہیں۔

ایک مرتبہ پھر آخری گیند تک مقابلے کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے، بلکہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اتوار کے روز ووٹنگ کے دوران کون اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔

منحرف ارکان کا ذکر کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قوم کے نوجوانوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ ان کے نمائندے اپنے ضمیر دولت کے عوض فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ منحرف ارکان اپنے ضمیر اور اپنے ملک کا سودا کر رہے ہیں اور انہیں لوگ معاف نہیں کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ محنت کر کے اس مقام تک پہنچیں ہیں اور مقابلہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اس لیے وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

ملک میں جاری سیاسی بحران کا پس منظر

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی جماعت سن 2018 کے عام انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی تھی۔ عمران خان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی تو ابتدا میں ان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان سامنے آئے تھے۔ بعد ازاں بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ یوں ملکی پارلیمان میں تحریک انصاف کی عددی اکثریت برقرار نہیں رہ پائی۔

دوسری جانب عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن جماعتوں کے یکجا ہونے کو بین الاقوامی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

’غیر ملکی سازش‘

اتوار ستائیس مارچ کے روز اسلام آباد میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے بیرون ملک سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اپنے خلاف اس مبینہ سازش کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس حوالے سے ان کے پاس تحریری ثبوت بھی موجود ہیں۔

آج جمعرات کے روز اس مراسلے کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی میں گفتگو کی گئی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے ملکی سفیر سے ملاقات کے دوران 'غیر ملکی عہدیدار‘ کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کو 'غیر سفارتی‘ اور پاکستان کے 'اندرونی معاملات میں مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔

پاکستانی وزیر اعظم کی روسی صدر سے ملاقات

01:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں