1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

'عمران خان کرکٹر کی طرح آخری گیند تک مقابلہ کریں گے‘

بینش جاوید
24 مارچ 2022

عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کریں گے، جس کے تحت وہ تحریک عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل عمران خان سے اپنا عہدہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تصویر: Ishara S. Kodikara/AFP

پاکستانی وزیر اعظم کو سن 2018 کے بعد اپنی قیادت کے سب سے مشکل چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی پارلیمان میں کل بروز جمعے سے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ سات روز میں ووٹنگ متوقع ہے، جس کے ذریعے عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے یا اس عہدے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

تحریک عدم اعتماد کے معاملے نے پاکستان میں آئینی، انتظامی اور اقتصادی بحران کا خطرہ پیدا کر دیا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں، جب پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے چھ ارب ڈالر کے قرض کی اگلی قسط کا انتظار ہے۔

پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے مطابق عمران خان کی جماعت کے بیس پارلیمانی اراکین کے منحرف ہو جانے کے بعد وہ پارلیمان میں اکثریت کھو چکے ہیں۔

عمران خان کرکٹر کی طرح سیاست کر رہے ہیں

گزشتہ شب عمران خان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا، ''کچھ بھی ہو جائے میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘‘ عمران خان کی اس پوزیشن کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود پاکستانی صحافی نوشین یوسف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''عمران خان نے سیاست کے میدان میں کرکٹ کا سٹائل متعارف کرایا ہے۔ کھلاڑی آخری گیند تک کھیلتا ہے اور عمران خان بھی بالکل آخری گیند تک کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ستائیس مارچ کو، جو جلسہ بلایا ہے، اس میں وہ بھی چھکے چوکے مارنا چاہتے ہیں۔‘‘

نوشین کہتی ہیں کہ اگر عمران خان حزب اختلاف کے دباؤ میں آتے تو وہ کافی دن پہلے ہی استعفیٰ دے دیتے لیکن ان کا مقابلہ جاری ہے، ''ابھی سیاسی میدان میں ایک بے یقینی کی صورتحال ہے، یہ نہیں معلوم کہ کون جیتے گا؟ آیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا نہیں؟‘‘

ماضی قریب میں پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد چیئرمین سینیٹ کے خلاف آئی تھی۔ اس وقت بھی حزب اختلاف بہت طاقت ور تھی لیکن وہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ نوشین کے مطابق اگرچہ یہ حالیہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے لیکن عمران خان اپنے اعصاب سے اپوزیشن کو مات دینا چاہتے ہیں، ''نوشین کے مطابق وہ اپنا ایک بیانیہ بھی بنا رہے ہیں، جیسے کہ حزب اختلاف کے اراکین مجرمانہ کیسز سے نکلنا چاہتے ہیں، ان پر عالمی دباؤ بھی ہے اور وہ ان سب کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘

نوشین کہتی ہیں، ''جب سے تحریک عدم اعتماد آئی ہے، عمران خان نے بہت جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب بھی ہو گئی تو ان کو اپنے ووٹرز کی حمایت حاصل ہو گی اور وہ مستقبل کی حکومت کو کڑا وقت دیں گے۔‘‘

'عمران خان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے‘

دوسری جانب اسلام آباد میں موجود تجزیہ کار شنیلہ سکندر کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے، ''آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر موجودہ وزیر اعظم صحیح طرح سے کام نہیں کر رہے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے اور اگر اس دوران حکومتی اراکین بھی وزیر اعظم کے کام سے ناخوش ہیں اور وہ حزب اختلاف سے مل جاتے ہیں تو بھی یہ جمہوری عمل ہے۔‘‘ شنیلہ کے مطابق جیسے کہ حکومت کے کچھ اراکین ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہے ہیں یا رشوت کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، تو وہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔

شنیلہ کے مطابق، ''عمران خان کے پاس اخلاقی طور پر حکومت کرنے کا جواز نہیں رہتا کیوں کہ وہ اکثریت کھو چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے وہ ممبران سامنے آ گئے ہیں، جو ان سے ناخوش ہیں، اس لیے وزیر اعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ اگلے انتخابات میں یہ ثابت کرنے کا موقع رکھتے ہیں۔‘‘

عمران خان کی پارٹی کے تقریباً 20 لوگ ان سے انحراف کر چکے ہیں۔ حکومت کے اتحادیوں میں سے بھی کچھ قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپوزیشن میں شامل ہو سکتے ہیں۔

کچھ سیاسی تجزیہ کار اور اپوزیشن کے قانون ساز کہتے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور فوج اب عمران خان سے اپنا ہاتھ اٹھا چکی ہے۔ دوسری جانب عمران خان اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں کہ کہ ان کے اقتدار میں آنے میں فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان فوج عوامی سطح پر کہتی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔

اپوزیشن نے خان پر معیشت کو گرانے اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ عمران خان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ  پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے کبھی اپنی پوری پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے لیے کم از کم  172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔ مشترکہ اپوزیشن کی ایوان زیریں میں 163 نشستیں ہیں۔ لیکن یہ حزب اختلاف پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان کے خلاف کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

وزیراعظم خان نے منحرف ہونے والے سیاست دانوں پر تاحیات پابندی عائد کرنےکے لیے عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے اور ساتھ ہی ان سے حکمراں جماعت میں واپس آنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ عمران خان نے ستائیس مارچ کو اسلام آباد میں ''ملین افراد‘‘ کی ریلی کا اعلان کیا ہوا ہے۔

’خان صاحب اجازت ہو تو اب گھبرا لیں؟‘

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں