عمران خان کہاں اور کس حال میں ہیں؟
1 دسمبر 2025
عمران خان کے اہل خانہ کے مطابق ان کا تقریباﹰ تين ہفتوں سے جیل میں قید سابق وزیر اعظم سے کوئی رابطہ نہیں۔ اہل خانہ کی اس پريشانی اور حکومتی ترديد کے تناظر ميں بين الاقوامی ماہرين کا کہنا ہے کہ يہ خان پر کسی نئی ڈيل قبول کرنے کے ليے دباؤ کی کوشش ہو سکتی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ حکام ان کے والد کی صحت کے بارے میں ''کوئی ناقابلِ تلافی بات‘‘ چھپا رہے ہیں۔ ان کے بقول گزشتہ تین ہفتوں سے عمران خان کے زندہ ہونے کے بارے میں کوئی بھی قابلِ تصدیق ثبوت سامنے نہیں آیا۔
عدالتی حکم کے باوجود جیل میں ملاقات کی اجازت نہ دیے جانے اور ممکنہ طور پر اڈیالہ جیل سے منتقلی کی افواہوں کے دوران عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے خبر رساں ايجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خاندان کے ارکان کا اب تک ان سے کوئی براہِ راست یا بالواسطہ رابطہ نہیں ہوا۔
دريں اثناء پاکستان تحريک انصاف کے بانی کی بہن عليمہ خانم نے کہا ہے کہ عمران خان حکومت سے سمجھوتہ نہيں کريں گے۔ انہوں نے يہ بيان ڈی ڈبليو کے ساتھ واٹس ايپ پر ايک کال ميں ديا۔ خانم نے مزيد کہا، ''آٹھ بائی دس کے سيل ميں ڈھائی سال قيد کاٹنے کے بعد بھی عمران خان قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی پاماليوں کے خاتمے اور آزاد انتخابات کی وکالت کر رہے ہيں۔ جمہوريت کے ليے ان کا عزم اب بھی پختہ ہے۔‘‘
عليمہ خان نے بتايا کہ وہ عمران خان کی خيريت، ان کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کےحوالے سے فکرمند ہيں۔ ان کے بقول حکام اسلام آباد ہائی کورٹ کے رواں سال مارچ کے اس آرڈر کی خلاف ورزی کر رہے ہيں، جس کے تحت ہفتے میں دو دن یعنی منگل اور جمعرات کو خان سے جيل ميں ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔
وزير اعظم سے مجرم تک
اپريل 2022ء ميں پارليمان ميں عدم اعتماد کی تحريک کے نتيجے ميں عمران خان کی حکومت چلی گئی تھی۔ اگست 2023ء سے وہ جيل ميں ہيں اور بدعنوانی کے جرم ميں چودہ سال کی قيد کاٹ رہے ہيں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان پر يہ الزامات انہيں سياست سے دور رکھنے کے ليے ملک کی طاقت ور فوج نے لگوائے ہيں۔
عمران خان کہاں ہيں؟
پی ٹی آئی کے ترجمان سید ذوالفقار بخاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''پورا ملک یہ پوچھ رہا ہے کہ عمران خان کہاں ہیں؟ ملک کے مقبول ترین رہنما ہونے کے ناتے عوام اور ان کے اہلِ خانہ دونوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں۔‘‘ بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تقریباً 30 دن کی غیر قانونی مکمل قيد تنہائی دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان میں کتنی مقبولیت رکھتے ہیں۔
بخاری نے کہا، ''خدشہ ہے کہ غیر قانونی ترامیم اور توسیعات کے تناظر میں عمران خان کا کوئی بيان آ سکتا ہے۔ اسی ليے انہیں ایک ماہ سے چوبیس گھنٹے کی بندش میں رکھا ہوا ہے۔ یہ فاشسٹ آمریت ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
پاکستان ميں يہ معاملہ اس قدر طول پکڑ چکا ہے کہ ايکس پر #WHEREISIMRANKHAN ٹرينڈ کرتا رہا۔
حکام کيا کہتے ہيں؟
جیل قواعد کے مطابق عمران خان کو ہفتے میں کم از کم ایک بار بیرونی افراد سے ملاقات کی اجازت ہے۔ اگرچہ حکام کے پاس یہ اختیارات موجود ہیں کہ وہ ان ملاقاتوں کو معطل بھی کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے متعدد ایسے ادوار کی نشاندہی کی، جن میں انہیں کسی بھی بیرونی رابطے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اسی دوران مقامی میڈیا پر ايسی رپورٹيں بھی چل رہی ہيں کہ 73 سالہ سابق کرکٹر عمران خان کو ممکنہ طور پر ایک میزد سخت سکیورٹی والی جیل منتقل کیا جا سکتا ہے، جس سے مستقبل کی ملاقاتیں اور زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہيں۔ وزارتِ داخلہ نے ايسی رپورٹوں کی تردید کی ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کی صحت کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے تاہم وہ بالکل صحت مند ہیں۔ حکومت کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا، جب عمران خان کی بہن علیمہ خانم اور نورین نیازی نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید کے دوران عمران خان کی وفات کے حوالے سے آن لائن افواہوں پر تشویش ظاہر کی۔
وزير داخلہ طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی عمران خان کی صورتحال کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ماضی میں ان کی صحت اور بہبود کے حوالے سے متعدد افواہیں گردش کر چکی ہیں۔ بیماری یا کسی بدتر حالت کے دعوے صرف سیاسی چال ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل صحت مند ہیں۔ میں پی ٹی آئی کے حامیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جھوٹی افواہوں کے بجائے ان کے لیے دعائیں کریں۔‘‘
سياسی مبصرين کيا کہتے ہيں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے دباؤ کے ایک حربے کے طور پر عمران خان کا ان کے خاندان سے رابطہ منقطع کر رکھا ہے تاکہ خان کو حکومتی مطالبات قبول کرنے اور خاموش رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم جنوبی ايشيائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمين نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''حکومت اس اميد ميں دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کہ خان اپنے خاندان سے الگ ہو کر کسی نئے سمجھوتے پر رضامند ہو جائیں، جو وہ معمول کے مطابق قبول نہیں کرتے۔ جیسے کہ گھر پر نظر بندی یا بیرونِ ملک جلاوطنی، بشرط یہ کہ وہ خاموش رہیں۔‘‘
رپورٹ: عاصم سليم (ہارون جنجوعہ)
ادارات: شکور رحيم