عمران خان کی اٹک جیل میں پہلی رات، سکیورٹی انتہائی سخت
6 اگست 2023تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو توشہ خان کيس ميں قصوروار قرار ديتے ہوئے تین برس قید کی سزا سنائے جان کے بعد انہیں لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ اس فیصلے سے ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی اور ملک کے مختلف حلقوں میں اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں سیاستدانوں کا مستقبل تاریک ہی رہے گا۔ 2022ء میں عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم ان کی جماعت تحریک انصاف اب بھی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔
عمران خان کو جن الزامات اور قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے وہ کسی بھی سیاستدان کے سیاسی کیریئر کو ختم کرنے اور اسے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگین نتائج کے طور پر عمران خان اپنی پارٹی کی سربراہی بھی کھو سکتے ہیں، جو ان کے لیے اور ان کی جماعت کے لیے بڑا دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہفتہ پانچ اگست کو عمران خان کی گرفتاری سے قبل رواں برس مئی میں بھی انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سابق کرکٹر عمران خان اب ان سابق پاکستانی وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں فوجی مداخلت کے ذریعے سیاست سے دور کیا گیا اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ ایسے واقعات سے بھرپور ہے۔
عمران خان کی اس بار کی گرفتاری مئی میں ان کی گرفتاری سے مختلف ہے۔ تب ان کے حراستی حالات ابھی کے مقابلے میں مختلف تھے۔ تب انہیں اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے احکامکات پر ایک پولیس کمپاؤنڈ میں موجود گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا تھا اور عمران خان کو اپنے پارٹی کے رفقا کے ساتھ ملاقاتوں کی اجازت دی گئی تھی۔
جبکہ اس بار عمران خان کو اٹک جیل پہنچا دیا گیا ہے جو اپنی سخت حالات کے حوالے سے کافی بدنام ہے۔ اس جیل میں مقید قیدیوں میں سزا یافتہ عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ عمران خان کو اس جیل میں پہنچانے کے ساتھ ہی حکام نے جیل کے اردگرد سکیورٹی مزید سخت کردی۔ جیل کے راستے پر اضافی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو اس دور رکھا جا سکے اور تمام سڑکیں بند کردی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مقامی لوگوں کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ میڈیا کو اپنی چھتوں پر تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی ہر گز اجازت نہ دیں۔
پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے ایک وکیل شعیب شاہین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اٹک جیل میں عمران خان سے ملنے کے لیے جانے والی ایک قانونی ٹیم کو پولیس نے جیل میں داخلے سے روک دیا۔ شعیب شاہین نے کہا کہ اب پارٹی اپیل دائر کرے گی کیونکہ ان کے مطابق خان کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے میں ''بہت سی خامیاں اور جھول موجود ہیں۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ خان کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی کوششوں کے پیچھے سیاسی محرکات کار فرما ہیں۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت اور ہجوم کو متحرک کرنے کی صلاحیت ان کے مخالفین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خاص طور سے موجودہ حکمران اتحاد اور اس کے پاکستان کی طاقتور فوج میں بھی موجود حامی خان کو سیاست سے دور رکھنے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 1947ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ملک پاکستان کے قیام سے اب تک ملکی سیاست اور اقتدار زیادہ تر فوج کے ہی کنٹرول میں رہے ہیں۔
رواں برس مئی میں، عمران خان کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری پرپاکستان بھر میں تشدد کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جس کے کچھ دن بعد ہی سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
ک م/اب ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)