عمران خان کی بطور وزیر اعظم حلف برداری اٹھارہ اگست کو
10 اگست 2018
پاکستان میں حالیہ عام انتخابات کے بعد نو منتخب قومی اسمبلی کا اولین اجلاس تیرہ اگست پیر کے روز ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نئے ملکی وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف ہفتہ اٹھارہ اگست کو اٹھائیں گے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ دس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق موجودہ نگران حکومت نے ملکی صدر ممنون حسین کو جو سمری بھیجی تھی، اس کی صدارتی منظوری کے بعد 25 جولائی کے قومی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے وفاقی پارلیمان کے نئے ایوان زیریں یا قومی اسمبلی کا اولین اجلاس پیر 13 اگست کو ہو گا۔
پاکستان کی آزادی کی سالگرہ یعنی 14 اگست سے ایک روز قبل ہونے والے نئی قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں نو منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے اور اس کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں آئے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ جولائی میں منعقدہ وفاقی اور صوبائی پارلیمانی انتخابات کے بعد موجودہ نگران حکومت کی طرف سے نو منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اقتدار کی منتقلی کا یہ عمل اگلے ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔
اس عمل کی ابتدا نگران وزیر اعظم ناصرالملک کی طرف سے صدر ممنون حسین کو نئی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی اس سمری سے ہوئی تھی، جو اسی ہفتے جمعرات کو ایوان صدر کو بھیجی گئی تھی۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
نئے وزیر اعظم کی حلف برداری اٹھارہ اگست کو
اسی دوران اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی سربراہ مملکت ممنون حسین عمران خان سے بطور وزیر اعظم حلف اٹھارہ اگست ہفتے کے روز ہونے والی ایک تقریب میں لیں گے۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ اس پارٹی کو ملنے والی سیٹوں کی تعداد اکیلے حکومت سازی کے لیے کافی نہیں تھی، اس لیے پی ٹی آئی کو بہت سے آزاد امیدواروں اور چند چھوٹی ہم خیال یا اتحادی جماعتوں کی مدد حاصل کرنا پڑے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اسے 342 رکنی نئی قومی اسمبلی میں اب تک مجموعی طور پر 180 اراکین پارلیمان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے جبکہ اگلے پانچ برسوں کے لیے وزیر اعظم کے طور پر اپنے انتخاب کے لیے عمران خان کو کم از کم بھی 172 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔
دوسری طرف پاکستانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صدر ممنون حسین کو اس ماہ کی 16 سے لے کر 19 تاریخ تک ایک غیر ملکی دورہ کرنا تھا تاہم اب صدر نے اپنا یہ دورہ اس لیے ملتوی کر دیا ہے کہ وہ نو منتخب وزیر اعظم سے حلف لے سکیں۔ اپنا یہ غیر ملکی دورہ صدر ممنون حسین اب نئی حکومت کے اقتدار میں آ جانے کے بعد کریں گے۔
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے بھی جمعے کے روز ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں تصدیق کر دی کہ عمران خان کی پاکستان کی آئندہ وفاقی حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف برداری ہفتہ 18 اگست کو ہو گی۔
م م / ا ا / اے پی
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔