1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی توہین عدالت کے مقدمے میں طلبی

23 اگست 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توہین عدالت کے مقدمے میں 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عمران خان کو ایک خاتون جج کے خلاف تقریر پر مقدمے کا سامنا ہے۔

Pakistan | Imran Khan
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

 عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں تین سے زائد ججز پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ  بھی کیا ہے۔ عمران خان کو اختتام ہفتہ پر کی گئی ایک تقریر میں  ایک خاتون جج کو دھمکی دینے کے معاملے پر توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف اس عدالتی کاروائی کا  آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے بھجوائے گئے ایک نوٹ پر شروع کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں آج منگل 23 اگست کو عدالتی کاروائی شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں عمران خان کی تقریر کا متن پڑھ کر سنایا۔ سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نےخاتون ایڈیشنل جج کے خلاف قابل اعتراض اور سخت زبان استعمال کی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ یہ خاتون پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما شہباز گل کے خلاف مقدمے کی سماعت سن رہی ہیں۔

پی ٹی آئی زیر عتاب: پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام

عدالتی بنچ کے سربراہ  نے عمران خان کی خاتون جج سے متعلق تقریر کے حصے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرے ہوئے کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اگر عدالت کسی کے خلاف فیصلہ دے تو کیا اسے عدالت کے خلاف تقریریں شروع کر دینی چاہیے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ان کے زیر غور کیس مفاد عامہ کا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کا حل نکالا جائے۔ عدالت نے اپنی کارروائی کے اختتام پر عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 اگست کو طلب کر لیا ہے۔

تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

توہین عدالت کی کاروائی، اعلی عدلیہ کا اختیار

 پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک وکیل کاشف علی ملک نے عدالتی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 204 کی پہلی شق اعلٰی عدالتوں کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو سزا دے سکتی ہیں جو کسی بھی طریقے سے عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہو یا عدالتی حکم عدولی کا مرتکب ہو۔

کاشف ملک کے مطابق، ''توہین عدالت کے آرڈیننس مجریہ 2003ء کی شق تین اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں جس نے ماتحت عدالت یا اس کے جج کی توہین کی ہو۔‘‘ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ توہین عدالت کی کارروائی تین بنیادوں پر ہوتی ہے جن میں سول، جوڈیشل اور کریمنل شامل ہیں۔  عمران خان کوکریمنل یا فوجداری کارروائی کا سامنا ہے۔

تصویر: Waseem Khan/AP Photo/picture alliance

 فوجداری کاروائی کے مضمرات

خیال رہے کے سپریم کورٹ نے  پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں علامتی سزا سنائی تھی تاہم اس کے باجود نا صرف وہ اپنے عہدے سے محروم ہو گئے تھے بلکہ ان میں انتخابات پر حصہ لینے یا کوئی بھی عوامی عہدہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

عمران خان کے خلاف منگل کے روز ہونے والی ابتدائی کارروائی کے بارے میں کاشف ملک کا کہنا تھا کہ عدالت نے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ  انہیں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنے عمل کی وضاحت پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔  کاشف ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عام طور پر اس طرح کے مقدمات میں ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنے عمل کی غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں اور عدالت اسے قبول کر کے مقدمے کو نمٹا دیتی ہے۔ دوسری صورت میں ملزم  جواب دینے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، اور اس کے بعد کاروائی آگے بڑھتی ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے علاوہ اپنی تقریر کے دوران اسلام آباد پولیس کے اعلی افسران کو مبینہ دھمکیاں دینے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

عمران خان کو ماضی میں بھی توہین عدالت کے الزامات پر سپریم کورٹ میں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج  کو مسترد کرتے ہوئے اس حوالے سے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے کردار کو شرمناک قرار دیا تھا۔  تاہم بعد ازاں جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کو مستقبل میں محتاط  رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کر دیا تھا۔ البتہ عدالت نے اس بارے میں اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا تھا کہ سیاستدانوں اور دیگر عوامی شخصیات سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی دانش، ذہنی بالیدگی اور مختلف اداروں کے لیے احترام کے اظہار کے طور پر مہذب اور محتاط زبان کا استعمال کرتے ہوئے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کریں گے۔

پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے

01:28

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں