عمران خان کی جیت، افغان عوام ’محتاط انداز میں پر امید‘
شادی خان سیف، کابل
28 جولائی 2018
پاکستانی انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کو افغانستان میں خاصی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ افغان عوام اور تجزیہ کار عمران خان کی متوقع حکومت کے بارے میں محتاط انداز میں امید کا اظہار کر رہے ہیں۔
اشتہار
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ہفتہ 28 جولائی کو اعلان کردہ نتائج کے مطابق 272 نشتوں کے ایوان میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی سب سے زیادہ 116 نشستیں جیت کر روایتی بڑی جماعتوں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
انتخابات کے اگلے روز ایک بیان میں متوقع پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دیگر امور کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک افغانستان بابت بھی اپنا نکتہ نظر واضح کیا،.’’افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس سے پہلے افغان جہاد میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی ہے۔ افغانستان کے لوگوں کو امن کی ضرورت ہے اور اس کے بعد جو ملک افغانستان میں امن چاہتا ہے وہ پاکستان ہے، افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا، بلکہ میں تو یہ بھی چاہتا ہوں کہ ایک دن ہمارے بھی (افغانستان کے ساتھ) اوپن بارڈر ہو، جیسا کہ یورپی یونین میں ہے۔
کابل حکومت نے فوری طور پر پاکستان کے انتخابات کی بابت ابھی تک کوئی رسمی بیان جاری نہیں کیا۔ حکام کے بقول اس ضمن میں حتمی نتائج اور صورت حال میں وضاحت کا انتظار کیا جارہا ہے۔
اس کے باوجود عمران خان کو مبارکباد دینے والے غیر ملکی سفارتکاروں میں سب سے آگے افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال رہے، جنہوں نے ابتدائی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو مبارکبار دی او ر دونوں ممالک کے مابین امن اور استحکام کے لیے ان کے تعمیری کردار کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔ زاخیلوال نے افغان مہاجرين کو درپیش مسائل کے حل پر بھي زور ديا۔
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
9 تصاویر1 | 9
پاکستان کے ساتھ دیرینہ تاریخی، سماجی اور تجارتی رابطوں باعث افغان عوام البتہ ان انتخابات اور مستقبل کی پاکستانی حکومت ميں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے مابین مصروف ترین گزرگاہ ’طورخم – لنڈی کوتل‘ سے کچھ میل کے فاصلے پر مومند درہ نامی علاقے کے رہاشی محمد وقاص نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتايا کہ پشاور اور اطراف میں ان کے ہزاروں عزیز و اقارب ایک زمانے سے رہائش پزیر ہیں، اور ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ دونوں ممالک کی عوام کے لیے آمدورفت پر بندش نہ رہے تاکہ يہ بندھن قائم رہيں، ’’عمران خان کی جماعت نے خیبر پختوانخوا پر حکومت کی ہے، ان کو افغان مہاجرین کے مسائل بھی معلوم ہیں، اور اب انہیں اسلام آباد میں بیٹھ کر ان کو حل کرنا چاہیے۔‘‘.
عمران خان اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین مبینہ قربت کے باعث افغان مبصرین البتہ محتاط انداز میں حالات کو پرکھ رہے ہیں۔ تجزیہ نگار اکبر فولاد کے بقول اسی قربت باعث اس بات کے امکانات بالکل صفر ہیں کہ عمران خان پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کی پالیسی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر فولاد کا کہنا تھا، ’’عمران خان اور ان سے قبل طاہر القادری پر پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں نے کافی سرمایہ کاری کی ہے، یہ کسی صورت بھی فوج کی مخالفت نہیں کرسکتے اور یہ یورپی اتحاد کی مانند کھلی سرحدوں والی بات محض ایک شوشہ ہے عوام کو فریب دینے کے لیے۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ افغان صدر محمد اشرف غنی سال 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اولین بیرون ملک دورے پر اسلام آباد میں سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملے تھے۔.اس وقت صدر غنی نے بھی ماضی کی تلخیوں، شبہات اور بدگمانیوں کے حوالے سے کہا تھا، ’’ہم اپنا مستقبل اپنے ماضی کے ہاتھوں تباہ ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔