عمران خان کی حکومت: ٹھوکریں کھاتی عدم اہلیت کا ایک سال
16 اگست 2019ایک برس قبل سترہ اگست سن دو ہزار اٹھارہ کو عمران خان نے جب وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا، تو کچھ حلقوں نے انہیں بہترین متبادل قرار دیا تھا تو کچھ نے انہیں مسیحا بھی سمجھ لیا تھا، جس کو پاکستان کے تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ہی تھا۔
عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جیت دراصل خود کو درست سمجھنے والوں اور اپنے مفادات کے لیے سرگرم متمول شہری مڈل کلاس طبقے کی کامیابی تھی۔ انہیں سمندر پار آباد سادہ لوح پاکستانی برادری کے علاوہ ملک میں سیاسی طاقت پر قابض حلقوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔
عمران خان کے حامی متفق تھے کہ بطور وزیر اعظم وہ تمام داخلی مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں گے۔ تاہم ایک برس گزر جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ غلط سوچ رہے تھے۔ عمران خان نے عام شہریوں کو راحت پہنچانے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ وفا ہوا ہی نہیں بلکہ غریب عوام مزید غربت میں دھنستے جا رہے ہیں۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان نے عوام کو ایک ایسے 'نئے پاکستان‘ کا خواب بیچا تھا، جس کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا انتظام منصفانہ اور ایماندارانہ طریقے سے چلایا جائے گا اور مالی بدعنوانی ختم ہو جائے گی۔
گزشتہ برس جولائی کے پارلیمانی الیکشن میں پری پول اور ووٹنگ کے عمل میں دھاندلی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے۔ ملک کی اہم پارٹیوں نے اس دوران مزاحمت دکھائی لیکن اس خوف سے وہ تعاون پر مجبور ہو گئیں کہ جمہوری عمل مکمل طور پر ختم بھی ہو سکتا ہے۔
یوں عمران خان کی حکومت نے آرام سے اقتدار سنبھالا۔ ملک کے تمام طاقت ور ادارے بشمول میڈیا عمران خان کے ساتھ تھے۔
اقتصادی بد انتظامی
عمران خان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس پارٹی نے ملکی معیشت کی بہتری کے حوالے سے جتنے بھی وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہو سکے۔
ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ایک خاص طریقے سے کام کرتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف ملکی اقتصادی نظام کو ٹھیک کرنے کی بات تو کرتی ہے لیکن اس سسٹم سے ہی نابلد ہے۔
عمران خان کی حکومت کی طرف سے بدعنوانی کے خاتمے اور ریاستی قرضے چکانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اقتصادی ترقی کی بہت خراب صورت حال کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور بے روزگاری کی شرح بھی بڑھی ہے۔
خارجہ امور اور داخلی پالیسیاں
جہاں تک بات خارجہ امور کی ہے، تو عمران خان پاکستان کے مفاد میں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری بھی بے یقینی کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف امریکا بھی اس وقت پاکستان کی مدد کو تیار نظر نہیں آتا جب تک کہ اسلام آباد حکومت افغان امن عمل میں واشنگٹن کی خواہشات پورا نہیں کرتی۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ لابیئنگ کے نتیجے میں بھی پاکستان کو محدود فائدہ ہوا ہے۔ بھارت کی طرف سے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان مسلم ممالک کی طرف سے پاکستان کو کوئی گرمجوشی سے عبارت جواب بھی نہیں ملا۔
میڈیا اور سیاسی منحرفین کے خلاف کریک ڈاؤن
گزشتہ ایک برس میں عمران خان کی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے جو کام کامیابی سے کیا ہے، وہ سیاسی منحرفین کے خلاف کریک ڈاؤن ہے۔ ساتھ ہی آزادی اظہار پر بھی قدغنیں لگانے میں اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے میں یہ حکومت کامیاب ہی نظر آتی ہے۔
ایک سال مکمل ہونے پر عمران خان کی حکومت کو اپنی کارکردگی کا بغور مشاہدہ کرنا چاہیے۔ اسے دیکھنا ہو گا کہ عوامی بہبود اور ترقی کے لیے اقتصادی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کرنا ہے۔ غربت کے خاتمے اور پیداوار کو بڑھانے کے نئے طریقوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔
عمران خان کی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ بھی لینا ہو گا۔ پرکھنا ہو گا کہ ایسے کسی طویل المدتی وژن کو کیسے ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس میں پاکستان عالمی سطح پر ایک اہم ملک بن کر ابھرے۔
آخری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو انسانی حقوق کے کارکنان کی اہمیت بھی سمجھنا ہو گی اور ان کا احترام بھی کرنا ہو گا۔ اسے آزادی اظہار کو یقینی بنانا ہو گا، جو ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کا اہم اور پائیدار جزو ہوتا ہے۔
حارث خلیق، اسلام آباد / ع ب / م م