عمران خان کی علماء سے ملاقات: مدرسوں میں اصلاحات ممکن؟
عبدالستار، اسلام آباد
4 اکتوبر 2018
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی مذہبی علماء سے ملاقات اور مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کئی حلقے یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا مذہبی مدرسوں میں اصلاحات ممکن بھی ہیں۔
اشتہار
سماجی اور تعلیمی امور کے کئی ماہرین اس ملاقات کو مذہبی طبقے کو خوش کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک کا مذہب پسند طبقہ کبھی بھی مدرسوں میں اصلاحات نہیں ہونے دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز علماء کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے مدارس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سماجی ترقی میں مدارس نے جو خدمات انجام دی ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا گیا اور مدارس کو دہشت گردی سے بھی جوڑا گیا، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
پاکستان میں اعتدال پسند حلقے وزیر اعظم کے اس بیان، مذہبی علماء سے ان کی ملاقات اور مدارس میں ممکنہ اصلاحات پر تنقید کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری مبینہ طور پر انتہا پسندانہ تقریر پر تنقید کی زد میں ہیں۔
انہوں نے یہ تقریر حال ہی میں مذہبی جماعتوں کے ایک پروگرام میں کی تھی، جس میں انہوں نے ایک مذہبی اقلیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
کئی ناقدین کے خیال میں ان کی یہ تقریر مذہبی منافرت پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تقریب میں حافظ سعید سمیت کئی جہادی رہنما بھی موجود تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ بدھ تین اکتوبر کو علماء اور وزیر اعظم کے مابین ہونے والی ملاقات کا اہتمام بھی نورالحق قادری نے ہی کیا تھا۔
سماجی امور کے ماہرین کے خیال میں مدارس اور ان سے وابستہ تنظیموں پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں فرقہ واریت پھیلائی اور مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔ ایسے میں ان مدارس کے سر پرستوں سے ملاقات انتہا پسند عناصر کی مزید حوصلہ افزائی بھی قرار دی جا رہی ہے۔
معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں مدارس میں اصلاحات کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں، ’’پہلے بھی عمران خان بابائے افغان طالبان مولانا سمیع الحق سے ملے تھے اور ان کے مدرسے کو خطیر رقم بھی دی گئی تھی۔ تو کیا وہاں اصلاحات ہوئیں؟ حالانکہ ان مدارس کی تعلیم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن مذہبی رہنما کسی بھی صورت نہ تو مدارس کا نصاب تبدیل کریں گے اور نہ ہی اس میں کوئی مداخلت برداشت کریں گے کیونکہ یہ ادارے صرف مدارس ہی نہیں بلکہ مولوی حضرات کے سیاسی قلعے بھی ہیں۔‘‘
ماضی میں سعودی عرب پر یہ الزام رہا ہے کہ اس نے پاکستان میں ایسے مدارس کی مالی امداد کی، جو مذہبی منافرت، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ پاکستان میں سعودی اثر و رسوخ کم ہو جائے گا۔ لیکن موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ اثر و رسوخ پھر بڑھ رہا ہے۔
اس بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ اصلاحات کی مزاحمت سعودی عرب کی طرف سے بھی ہو گی، ’’وہ یہاں پیسہ لا رہے ہیں۔ ان کا یہاں اثر و رسوخ ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے خود اعتراف کیا کہ ان کے ملک نے ماضی میں مغرب کے کہنے پر مدارس کھلوائے تھے۔ اب وہ اپنے ملک میں تو انہیں لگام ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں ایسے کوئی آثار نہیں کہ ان مدارس کے کردار کو ختم کیا جائے یا ان کے نصاب میں تبدیلی لائی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو سعودی دباؤ بھی دیکھنے میں آئے گا۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب میں کوئی اصلاحات ممکن نہیں، ’’اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ آپ مدارس کے بچوں کو ریاضی، طبیعیات، کیمیا، کمپیوٹر سائنس اور دوسرے مضامین پڑھائیں۔ کیا ہمارے مولوی حضرات یہ مضامین پڑھا سکتے ہیں؟ وہ تو اورنگزیب کے دور سے درسِ نظامی پڑھا رہے ہیں، جس کی عملی دنیا میں کوئی کھپت ہی نہیں۔ تو یہ حلقے کسی بھی تبدیلی کی مخالفت تو کریں گے۔‘‘
کئی ماہرین کے خیال میں سعودی سرمایہ کاری کے بعد ان ممکنہ اصلاحات کے عمل میں مزید مشکل پیدا ہو جائے گی۔ ان کے خیال میں مذہب پسند طبقے کو خوش کرنے کی روش ملک کو ہمیشہ سے نقصان پہنچاتی چلی آئی ہے۔
معروف ماہر تعلیم پرویز ہودبھائی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پہلے ہم نے لال مسجد والوں کو خوش کیا تھا اور اس کا نتیجہ بھی دیکھا۔ یہ عمل ریاست اور سیاسی رہنماؤں کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن اس سارے عمل کے باوجود مولوی حضرات کسی بھی طرح کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تبدیلی تو دور کی بات ہے، سعودی سرمایہ کاری کے بعد جو مدارس ان کے ایجنڈے پر چلیں گے، انہیں مزید فروغ ملے گا۔‘‘
کس جماعت کو کتنے پاکستانیوں نے ووٹ دیے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سب سے نمایاں رہی۔ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد قریب 106 ملین تھی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس جماعت کو ملک بھر سے کتنے ووٹ ملے۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
1۔ پاکستان تحریک انصاف
قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک بھر سے 16.8 ملین ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوا۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی پنجاب سے 11.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے، سندھ سے 1.5 ملین ووٹوں کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا سے 2.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے جب کہ بلوچستان میں ایک لاکھ نو ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad
2۔ پاکستان مسلم لیگ نون
پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی محض 64 نشستیں حاصل کر پائی لیکن ملک بھر سے 12.9 ملین افراد نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی ایم ایل این پنجاب سے 10.5 ملین ووٹوں کے ساتھ دوسرے، سندھ سے 2 لاکھ 37 ہزار ووٹوں کے ساتھ آٹھویں، خیبر پختونخوا سے 6 لاکھ 43 ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور بلوچستان سے قریب 29 ہزار ووٹ حاصل کر کے گیارہویں نمبر پر رہی۔
تصویر: Reuters/M. Raza
3۔ پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی 6.9 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہی۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی پی پی کو سب سے زیادہ 3.8 ملین ووٹ سندھ میں ملے جہاں اسے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ جماعت پنجاب میں 1.8 ملین ووٹ حاصل کر کے چوتھے، خیبر پختونخوا میں قریب ساٹھ لاکھ ووٹوں کے ساتھ چھٹے اور بلوچستان میں 57 ہزار ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
4۔ آزاد امیدوار
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کو مجموعی طور پر چھ ملین سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
5۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان
مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے 2.5 ملین ووٹ حاصل کیے اور اس اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں دوسرے، بلوچستان میں تیسرے، سندھ میں چوتھے اور پنجاب میں چھٹے نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/U. Fatima
6۔ تحریک لبیک پاکستان
تحریک لبیک پاکستان سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ کوئی اور نشست حاصل نہیں کر پائی تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اسے ملک بھر سے قریب 2.2 ملین ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے ٹی ایل پی کو چار لاکھ ووٹ ملے اور یہ ساتویں نمبر پر رہی۔ پنجاب میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوئی جسے 1.8 ملین ووٹ ملے تاہم وہ یہاں سے کوئی ایک نشست بھی نہ جیت پائی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
7۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
گرینڈ ڈیموکرٹک الائنس صوبہ سندھ میں متحرک تھی اس جماعت کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1.25 ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں کو 1.5 ملین ووٹ ملے۔
تصویر: DW/U. Fatima
8۔ عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے اے این پی ساتویں بڑی سیاسی طاقت رہی جسے 8 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 8 لاکھ ووٹ حاصل کر کے اس صوبے میں اے این پی تیسری بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔
تصویر: DW/Faridullah Khan
9۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قومی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواروں کو 7 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدوار 7 لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
10۔ پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار 5 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی ایم ایل قریب چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے ساتویں نمبر پر رہی۔
تصویر: PR Department of Pakistan Muslim League
11۔ بلوچستان عوامی پارٹی
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی بی اے پی نامی اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کے لیے قریب ساڑھے چار لاکھ جب کہ قومی اسمبلی کے لیے 3 لاکھ ستر ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
تصویر: Abdul Ghani Kakar
12۔ بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار 2 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اعتماد حاصل کر پائے جب کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: DW/A.G. Kakar
13۔ اللہ اکبر تحریک
اللہ اکبر تحریک کو حافظ سعید کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ جماعت قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرپائی تاہم قومی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں نے ملک بھر سے ایک لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔