پاکستان میں پچیس جولائی کے روز آئندہ عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ’کرپٹ حکمرانوں‘ کو ہٹا کر اقتدار حاصل کر لیں گے۔
اشتہار
انتخابات کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب مسلم لیگ نون اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے مدمقابل دکھائی دے رہے ہیں۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔
اس صورت حال میں کھیل سے سیاست میں آنے والے عمران خان اور تحریک انصاف کی یہ امید مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ اب کے انتخابات میں عمران خان کی ملکی وزیر اعظم بننے کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو پائے گی۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو شکست دینے میں کامیاب رہیں گے۔ گزشتہ روز پاکستانی صدر ممنون حسین کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ منظور کیے جانے کے بعد آج ستائیس مئی کے روز پی ٹی آئی کے جاری کردہ ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا گیا، ’’پچھلی کئی دہائیوں سے ملک پر مسلط کرپٹ حکمرانوں کو قانون کےکٹہرے میں لانے کے بعد ، پاکستانی قوم آج سے ٹھیک 58 دن بعد نئے پاکستان کا سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوگی، جہاں نہ تو کرپٹ مافیا کا راج ہوگا اور نہ ہی کوئی اس ملک کے مستقبل سے کھیلنے کےجرأت کرےگا۔‘‘ اسی طرح ایک اور ٹوئیٹ میں لکھا گیا، ’’اگر ہمیں روک سکتے ہو تو روک لو۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
دوسری جانب مسلم لیگ نون کا الزام ہے کہ انتخابات سے قبل ملک کی طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاسی طاقت ختم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ نواز شریف خود کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد سے بتدریج عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل ہواؤں کا رخ پی ٹی آئی کے لیے موافق ضرور ہے لیکن اس کے باوجود ان کی جیت کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عسکری کا کہنا تھا، ’’ایک بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کی نشستوں میں اضافہ اور مسلم لیگ نون کی نشستوں کی کمی آئے گی، لیکن یہ فرق کتنا ہو گا؟ اس بارے میں اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں قریب نصف وقت تو فوج اقتدار میں رہی۔ جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں میں نواز شریف پاکستان کے پندرہویں ایسے وزیر اعظم تھے، جنہیں عہدے کی مدت سے قبل ہی اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ستر برسوں کے دوران سن 2013 میں پہلی مرتبہ ملکی اقتدار ایک جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا تھا۔ یہ انتخابات پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے جیت لیے تھے۔
مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ملکی پارلیمان مسلسل دوسری مرتبہ اپنی مدت مکمل کر رہی ہے اور اب ہم اپنی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رخ کر رہے ہیں اور وہی اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔‘‘
مسلم لیگ نون سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف اور خواجہ آصف کی نااہلی کی فیصلوں اور پے در پے سیاسی مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود اب بھی ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں عوامی حمایت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ان انتخابات میں انہیں تحریک انصاف کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ش ح/ع س (اے ایف پی)
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے
اسلام آباد میں پاکستان کی دو اپوزیشن جماعتیں اپنے ہزارہا کارکنوں کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
دھاوا بولنے والے شناخت
دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے بے قابو مظاہرین پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت کے اندر بھی داخل ہو گئے، جس کے بعد پی ٹی وی کی نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئیں۔ تاہم کچھ ہی دیر کے بعد فوج پہنچ گئی اور یہ مظاہرین پُر امن طور پر پی ٹی وی کے احاطے سے باہر آ گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ دھاوا بولنے والوں میں سے ستِّر کے قریب افراد کو شناخت کر لیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عمارتیں فوج کے حوالے
اس احتجاج کے موقع پر حکومت نے اہم سرکاری عمارتوں کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستانی فوج کو سونپ دی تھی۔ یہ فوجی مختلف مقامات پر پہرہ دیتے اور گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت پر دھاوے کے بعد نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں فوج نے اس اہم عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
تصویر: Reuters
طاقت کا استعمال، سینکڑوں افراد زخمی
اسلام آباد میں ہفتے کی شب پولیس نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ اس موقع پر ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تصویر: Reuters
پرامن دھرنے سے پرتشدد احتجاج تک
گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری یہ دھرنے 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پرتشدد واقعے میں اس وقت تبدیل ہو گئے، جب پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان واقعات میں اب تک تین افراد ہلاک جب کہ دو سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
سکیورٹی فورسز کی کارروائی
دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد میں اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھارت نفری طلب کی گئی تھی۔ مظاہرین کی جانب سے اہم عمارتوں کی جانب بڑھنے پر پولیس نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پارلیمان کی عمارت اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جب کہ ربر کی گولیاں چلائی گئیں۔
تصویر: Reuters
پنجاب پولیس کارروائی میں پیش پیش
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے دارالحکومت کی پولیس کی مدد کے لیے وزارت داخلہ نے صوبہ پنجاب کی پولیس سے بھی مدد طلب کی تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ
پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی
طاقت کے استعمال کے باوجود مظاہرین منتشر اور پھر جمع ہوتے رہے۔ سیکورٹی فورسز نے اہم عمارتوں تک جانے والے تمام راستوں کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی تحریک اور محفل سماع
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور مذہبی رہنما طاہر القادری کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں شریک ہے۔ گاہے بگاہے یہاں محفل سماع کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمان کا ’تقدس‘
پاکستانی حکومت اور فوج دونوں نے کہ رکھا تھا کہ وہ پارلیمان اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے تقدس کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے ایسی عمارتوں کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
احتجاج کے ساتھ میلہ بھی
پارلیمان کے سامنے شاہراہ دستور جسے اہم عمارات کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے، وہاں گزشتہ دو ہفتوں سے وہاں مظاہرین چلتے پھرے نظر آتے رہے اور ایک میلے کا سا سماں رہا۔
تصویر: DW/S. Raheem
عوامی تحریک کی کرین
مظاہروں کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کے لیے اس علاقے کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا، تاہم عوامی تحریک اپنے ہمراہ لاہور سے ایک کرین ساتھ لیے ہوئے تھی، جس کے ذریعے ان کنٹینروں کو بآسانی راستے سے ہٹا دیا گیا اور لوگ ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرمی بھی دھرنا بھی
احتجاجی خطابات عموماﹰ شام کے وقت ہوتے رہے، جب کہ باقی سارا دن یہ دھرنا دیے ہوئے مظاہرین موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کہیں چھتریوں کی آڑ میں نظر آتے رہے ہیں اور کہیں ٹرکوں ہی کو سائبان کیے دِکھتے رہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی میڈیا کی بازی گری
مقامی ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لے رہے ہیں، جن میں کیمروں کے حامل ڈرونز کا استعمال بھی شامل ہے، جس کے ذریعے جلسے میں مظاہرین کی تعداد اور فضائی منظر کی مدد سے عوام کو لمحے لمحے کی خبر دینے کی تگ و دو دیکھی جا سکتی ہے۔