عمران خان کی پارٹی کو بحران کا سامنا
6 جون 2013پارٹی کی ایک بانی رکن اور شعبہء خواتین کی سابق سربراہ فوزیہ قصوری کے اپنی ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑنے کے حالیہ فیصلے کے بعد تحریک انصاف کا اندرونی بحران بظاہر سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ پارٹی سربراہ عمران خان کی بستر علالت سے کی گئی اپیل بھی اس بحران کو ختم نہیں کر سکی۔
اٹھارہ سالہ رفاقت کے بعد پارٹی کو خدا حافظ کہنے والی فوزیہ قصوری نے پاکستان تحریک انصاف پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی پر 'مافیا کا قبضہ‘ ہو چکا ہے اور نظریاتی لوگوں کے لیے اس جماعت میں اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی کی رشتہ دار خواتین کو میرٹ سے ہٹ کر ٹکٹ جاری کیے گئے جبکہ دوہری شہریت کے حامل کئی افراد پارٹی انتخابات لڑ چکے ہیں لیکن ان کو امریکی شہریت ترک کر دینے کے باوجود پارٹی انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔
اکسٹھ سالہ فوزیہ قصوری عمران خان کی دیرینہ ساتھی اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی قریبی عزیز ہیں۔ آج کل بعض اخباری رپورٹوں میں ان کے آئندہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو جانے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وہ خود بھی یہ بات تسلیم کر چکی ہیں کہ جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ نے انہیں شمولیت کی دعوت دے رکھی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے خواتین ونگ کی صدر منزہ حسن نے بتایا کہ فوزیہ قصوری کو پارٹی نے مرکزی عہدے دیے، اپنا ترجمان بھی بنائے رکھا، پارٹی ٹکٹ بھی دیا لیکن اس کے باوجود محض پارٹی ٹکٹ کے لیے لسٹ میں ذرا پیچھے ہونے کی وجہ سے ان کا پارٹی چھوڑ دینا افسوسناک ہے۔ ان کے بقول فوزیہ قصوری کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر الیکشن کے لیے چوتھے نمبر پر ٹکٹ بھی دیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے پارٹی کو اتنی سیٹیں نہ مل سکیں کہ انہیں بھی پارلیمنٹ میں لایا جا سکتا۔ اس میں پارٹی کا کوئی قصور نہیں ہے۔،
ایک سوال کے جواب میں منزہ حسن نے بتایا کہ فوزیہ قصوری پی ٹی آئی کی آئین ساز کمیٹی کی رکن ہونے کے ناطے پارٹی قواعد و ضوابط سے آگاہ تھیں، پارٹی انتخابات میں ان کے کاغذات نامزدگی ان کی دوہری شہریت کی وجہ سے منسوخ ہو گئے، 'اصل بات یہ ہے کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ پارٹی کے لیے ان کی خدمات اپنی جگہ لیکن پارٹی ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تھا۔‘
منزہ حسن کے خیال میں پی ٹی آئی کے خواتین ونگ میں اثر و رسوخ کی حامل فوزیہ قصوری کے پارٹی سے چلے جانے سے پارٹی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن تحریک انصاف کے امور کی طویل عرصے سے کوریج کرنے والے مقامی صحافی امجد محمود کہتے ہیں، 'نظریاتی لوگوں کا اس پارٹی کو چھوڑنا ایک اہم بات ہے اور فوزیہ قصوری کی رخصتی کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھنا چاہیے۔‘ ان کے بقول تحریک انصاف میں پرانے اور نئے لوگوں کا اختلاف تو پہلے سے ہی موجود تھا۔ یہ اختلاف زرداری اور مشرف کی حکومتوں میں شریک افراد کے پارٹی میں آنے اور پیسے کے بل بوتے پر پارٹی کے اہم عہدوں پر آ جانے سے سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا، 'یہ لوگ انتخابی سونامی کی امید پر خاموش تھے لیکن انتخابات میں مطلوبہ کامیابی نہ ملنے پر اب یہ اختلافات سر اٹھانے لگے ہیں۔‘
امجد محمود کے بقول فوزیہ قصوری کا استعفٰی تحریک انصاف میں نظریاتی کارکنوں کے ڈپریشن کو ظاہر کر رہا ہے اور اگر پارٹی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو پھر یہ بحران شدت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ ان کی رائے میں فی الحال یہ نہیں لگتا کہ کوئی پارٹی تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں