1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی گرفتاری: شہر شہر احتجاج، نگر نگر مظاہرے

10 مئی 2023

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

Pakistan Protest Ausschreitungen Festnahme Imran Khan
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

ان احتجاجی مظاہروں میں شریک کارکنوں نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ کئی شہروں میں مشتعل احتجاجی کارکنوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، سرکاری گاڑیاں نذر آتش کردیں اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دیں۔

لاہور،کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں میں پولیس اور احتجاجی کارکنوں میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ملک بھر میں جاری ان احتجاجی مظاہروں میں کچھ کارکنوں کی ہلاکت کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنماوں نے بڑے پیمانے پراپنے کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان کے زخمی ہونے کا دعوی کیا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کی حکومت سے اس حوالے سے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ اور ان اطلاعات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی جا رہی۔

عمران خان کی گرفتاری کے پاکستانی سیاست پر ممکنہ اثرات

بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے پنجاب بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گیے ہیں اور بدھ کے روز ہونے والے لاہور بورڈ کے امتحانات بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

ادھر برٹش کونسل، یونیورسٹی آف لندن اور کیمبرج یونیورسٹی نے بھی بدھ کے روز ہونے والے اپنے امتحانات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

کئی شہروں میں مشتعل احتجاجی کارکنوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایاتصویر: Ahmed Khan/AFP

موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل

ان احتجاجی سرگرمیوں کے دوران منگل کی شام کو رات گئے تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔ پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کرکے جلوسوں، جلسوں اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لاہور میں رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔

منگل کی شام عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مختلف شہروں میں احتجاجی کارکنوں نے کنٹونمنٹ ایریاز کی طرف مارچ کیا اور ان علاقوں میں نعرے بازی کرتے ہوئے املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

لاہور میں ایک عسکری شخصیت کا گھر بھی احتجاجی کارکنوں کے غصے کی زد میں آیا۔ فورٹریس سٹیڈیم سے لے کر راحت بیکرز چوک کے آس پاس کے علاقوں میں جگہ جگہ جلائی جانے والی گاڑیوں کا ملبہ پڑا ہوا ہے اور سڑکوں پر اینٹیں اور پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ عزیز بھٹی روڈ پر واقع سی ایس ڈی کا شاپنگ مال پر بھی احتجاجی کارکنوں نے دھاوا بولا۔ 

لاہور میں احتجاجی کارکنوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی رہی اور رات گئے یہ مظاہرین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما منزہ حسن نے بتایا کہ احتجاجی کارکن شدید غم و غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں کنٹونمنٹ کے علاقے میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق احتجاجی کارکنوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عمران خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔

عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار

ادھر لاہور میں زمان پارک، مال روڈ، جی پی او چوک، اکبر چوک، لبرٹی چوک، فیصل ٹاون اور ملتان روڈ پر چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے پارٹی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے اور حکومتی شخصیات کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

لاہور میں سڑکوں پر معمول سے بہت کم ٹریفک دیکھنے میں آئی، مارکیٹیں وقت سے پہلے بند ہو گئیں۔ جبکہ میٹرو بس سروس کو بھی بند کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ پر امن احتجاج کرنا پی ٹی آئی کے کارکنوں کا آئینی اور قانونی حق ہےتصویر: Asif Hassan/AFP

پی ٹی آئی کی اپیل

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے رات گئے منعقد ہونے والے پارٹی رہنماوں کے ایک اہم اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ پر امن احتجاج کرنا پی ٹی آئی کے کارکنوں کا آئینی اور قانونی حق ہے اس لئے عمران خان کی رہائی تک اس احتجاج کو جاری رکھا جائے گا۔

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے فیصلے کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کا ایک وفد کل نیب کی حراست میں موجود عمران خان سے ملاقات کے لئے جائے گا۔

کیا پی ٹی آئی کا وفد عمران خان سے ملاقات کر سکے گا؟

ادھر پاکستان مسلم لیگ نون نے عمران خان کی گرفتاری پر شہر کے مختلف مقامات پر جشن منایا۔ اس موقعے پر خوشی سے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے اور اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کا عمران خان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی بجائے رینجرز کو استعمال کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھاتصویر: Aamir Qureshi/AFP

تجزیہ کاروں کی رائے

ممتاز عسکری تجزیہ کار فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالات حکومت کی نالائقی کی وجہ سے خراب ہوئے۔ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی بجائے رینجرز کو استعمال کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ ان کے بقول عمران خان کی گرفتاری پر جو خوفناک ردعمل آیا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

انہوں نے اپیل کی کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو عسکری مقامات سے دور رہنے اور اشتعال انگیز احتجاج سے باز رہنے کی اپیل کریں۔ دوسری طرف حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اور جھوٹے مقدمات ختم کرکے انتقامی کارروائیاں بند کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جس طرح تشدد کرکے گرفتار کیا گیا ہے اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی ملک کو اقتصادی بہتری اور استحکام کی طرف لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر سنجیدہ بات چیت کے ذریعے ملکی مسائل کاکوئی حل نکالیں وگرنہ حالات بہت زیادہ خراب بھی ہو سکتے ہیں۔

’مقبولیت کے زعم میں عمران خان زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں‘

سٹی فورٹی ٹو نیوز گروپ سے وابستہ پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خان صاحب کی طرف سے اداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی اور ان کے غیر مفاہمانہ رویے کی وجہ سے حالات اس حال تک پہنچے۔

ان کے بقول احتجاجی مظاہروں میں شریک نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی نہیں تھی۔ ایجنسیوں کو پہلے سے علم تھا کہ احتجاجی کارکنوں کو کنٹونمنٹ کی طرف بھیجا جائے گا اور وہ حساس عمارتوں پر ہلہ بولیں گے، اس لئے انہوں نے کسی بھی جگہ پر ان کا راستہ نہیں روکا لیکن ان تمام کارکنوں کی ویڈیوز بن گئی ہیں اور انہیں اپنی قانون شکنی کا حساب دینا ہوگا۔

سیاسی مبصرین کے بقول اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بدھ کے روز اس احتجاج میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

پاکستانی فوج میں کرپشن کے الزامات کی حقیقت کیا؟

نوید چوہدری کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تحریک جاری رہی تو پھر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے بیانیے کے حق میں اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہوں گی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔  

تنویر شہزاد، لاہور

سوچا نہیں تھا حکام ’ریڈ لائن‘ پار کر لیں گے، پی ٹی آئی ورکرز

02:40

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں