گرفتاری پر جشن، کیا سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا؟
6 اگست 2023
پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری پر ن لیگ اور کچھ جماعتیں جشن منا رہی ہیں، جس پر انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں۔
اشتہار
ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سزا پر جشن منایا تھا اور اب ن لیگ اور دوسرے مخالفین عمران خان کی سزا پہ جشن منا رہے ہیں، جسے کئی حلقے افسوسناک قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں عمران خان کی گرفتاری سے سیاست اور سیاست دانوں کو نقصان ہوا ہے۔
تاہم کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ عمران خان نے خود سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگا کے خود کے لیے ہی گڑھا کھودا تھا اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی تھی، جس کی وجہ سے آج کوئی سیاستدان ان کے حق میں بولنے کے لیے تیار نہیں۔ کئی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاست دانوں کو ہی جیل جانا پڑتا ہے جبکہ یحییٰ خان سے لے کر جنرل مشرف تک، جن فوجی سربراہوں نے آئین پاکستان کو توڑا اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں آئین کو پامال کرتے ہوئے جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لگایا۔ جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں ایک ایسا فوجی آپریشن کیا جس میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانوں پہ خلاف ورزیوں کا الزام لگا۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کے آئین کو توڑتے ہوئے 1977ء میں ملک میں مارشل لاء نافذ کیا جبکہ جنرل مشرف نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی جس پر انہیں بغاوت کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تا ہم ان کے مقدر میں بھی جیل نہیں آئی بلکہ وہ آسانی سے ملک سے فرار ہو گئے۔
’گرفتاری جی ایچ کیو کی کامیابی، سیاست دانوں کی ناکامی‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہنا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ عمران خان کے گرفتاری پر جشن منا رہے ہیں وہ خود بھی اس سارے عمل سے گزرے ہیں۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی جیل گئے اور قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ عمران خان کی گرفتاری پہ جشن منا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس ملک میں کون کٹھ پتلیاں بناتا ہے اور کون انہیں گراتا ہے۔ یہ گرفتاری سیاست دانوں کی ناکامی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی۔‘‘
ڈاکٹر خالد جاوید جان کے خیال میں سیاست دانوں کو سیاسی نظام اور جمہوریت کے لیے متحد ہونا چاہیے: ''جس طرح سیاستدانوں نے ماضی میں میثاق جمہوریت کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئی تیسری طاقت کو کھڑا کیا، بالکل اسی طرح آج سیاست دانوں کو تحریک انصاف کے ساتھ تمام اختلافات بھلا کر ہاتھ ملانا چاہیے اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ملک کے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف انتقامی رویہ اختیار نہیں کریں گے۔‘‘
اشتہار
’سیاست دانوں نے تاریخ سے نہیں سیکھا‘
اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر جشن منانا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے سیاست دانوں کے آپس کے چاہے جتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کم از کم ان کا نقطہ نظر ایک ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور انہیں اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
’ذمہ داری عمران خان پر بھی عائد ہوتی ہے‘
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ خود عمران خان نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ حمایت کی اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے وہ اقتدار میں آئے۔ انہوں نے سیاست میں بہت منفی رجحانات کو فرو غ دیا اور سارے سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیا۔
معروف سیاستدان اور سابق سینٹر افراسیاب خٹک کا خیال ہے عمران خان نے ماضی میں غلط روایات کو قائم کیا جس کا خمیازہ آج انہیں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے: ''ماضی میں جب نواز شریف صاحب کو سزا ہوئی تھی تو عمران خان، جہانگیر ترین اور دوسرے لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، جو غلط تھا اور آج اگر کوئی اور سیاسی جماعت عمران خان کی گرفتاری پہ جشن منا رہی ہے تو یہ بھی بالکل غلط ہے۔‘‘
افراسیاب خٹک کے مطابق عمران خان نے یہ بھیانک غلطی کی کہ انہوں نے سارے سیاست دانوں کو چور قرار دیا: ''اس طرح کا طرز عمل پارلیمانی جمہوریت میں نہیں چلتا، جہاں آپ کو اپنا نقطہ نظر رکھنا پڑتا ہے اور دوسروں کا نقطہ نظر سننا پڑتا ہے، لیکن عمران خان نے تمام سیاست دانوں کو چور ڈاکو قرار دے کر مذاکرات کے سارے دروازے بند کر دیے۔ اس طرح انہوں نے خود غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کو مضبوط کیا اور وہ ہاتھ آج ان کے خلاف بھی استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘
’جرنیلوں کو سزا کیوں نہیں ہوتی‘
پاکستان میں فوجی آمروں اور فوجی افسران پر مختلف نوعیت کے الزام لگتے رہے ہیں۔ کچھ جرنیلوں پر کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے بھی الزامات لگے جبکہ کئی فوجی سربراہوں نے آئین شکنی کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کیا لیکن کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی۔ افرا سیاب خٹک کے مطابق جرنیلوں کو سزا اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان میں اصل اختیار جرنیلوں کے پاس ہے اور سیاست دان صرف جرنیلوں کی پالیسی پر عمل درآمد کراتے ہیں: ''حمود الرحمان کمیشن نے یحییٰ خان کے حوالے سے یہ سفارش کی تھی کہ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے لیکن ایئر مارشل رحیم اور جنرل گل حسن نے ان کو بچا لیا اور انہیں نظر بند کیا گیا اور کوئی سزا نہیں دی گئی اور وفات پر انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔‘‘ افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ اسی طرح جنرل مشرف نے بھی آئین شکنی کی لیکن ان کو بھی فوج نے بچا لیا اور انہیں بھی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہنا ہے کہ فوجی جرنیلوں کو اس لیے سزا نہیں ہوتی کہ ادارے کے سارے لوگ متحد ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے جرنیلوں کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں جب کہ سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور متحد نہیں ہوتے۔
ایوب ملک کا کہنا ہے کہ کسی کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا عدالتی نظام اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ میں ہوتا ہے اس لیے وہ ایسے فیصلے دے ہی نہیں سکتیں جو جرنیلوں کے خلاف ہو۔