1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرفتاری پر جشن، کیا سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا؟

6 اگست 2023

پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری پر ن لیگ اور کچھ جماعتیں جشن منا رہی ہیں، جس پر انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سزا پر جشن منایا تھا اور اب ن لیگ اور دوسرے مخالفین عمران خان کی سزا پہ جشن منا رہے ہیں، جسے کئی حلقے افسوسناک قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں  عمران خان کی گرفتاری  سے سیاست اور سیاست دانوں کو نقصان ہوا ہے۔

 تاہم کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ  عمران خان  نے خود سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگا کے خود کے لیے ہی گڑھا کھودا تھا اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی تھی، جس کی وجہ سے آج کوئی سیاستدان ان کے حق میں بولنے کے لیے تیار نہیں۔ کئی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاست دانوں کو ہی جیل جانا پڑتا ہے جبکہ یحییٰ خان سے لے کر جنرل مشرف تک، جن فوجی سربراہوں نے آئین پاکستان کو توڑا اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں آئین کو پامال کرتے ہوئے جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لگایا۔ جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں ایک ایسا فوجی آپریشن کیا جس میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانوں پہ خلاف ورزیوں کا الزام لگا۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کے آئین کو توڑتے ہوئے 1977ء می‍‍ں ملک میں مارشل لاء نافذ کیا جبکہ  جنرل مشرف نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی  جس پر انہیں بغاوت کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تا ہم ان کے مقدر میں بھی جیل نہیں آئی بلکہ وہ آسانی سے ملک سے فرار ہو گئے۔

فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان میں آئین کو پامال کرتے ہوئے ملک میں مارشل لگایا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔تصویر: imago stock&people

’گرفتاری جی ایچ کیو کی کامیابی، سیاست دانوں کی ناکامی‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہنا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ عمران خان کے گرفتاری پر جشن منا رہے ہیں وہ خود بھی اس سارے عمل سے گزرے ہیں۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی جیل گئے اور قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ عمران خان کی گرفتاری پہ جشن منا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس ملک میں کون کٹھ پتلیاں بناتا ہے اور کون انہیں گراتا ہے۔ یہ گرفتاری سیاست دانوں کی ناکامی ہے‍ اور اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی۔‘‘

‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍ڈاکٹر خالد جاوید جان کے خیال میں سیاست دانوں کو سیاسی نظام اور جمہوریت کے لیے متحد ہونا چاہیے: ''جس طرح سیاستدانوں نے ماضی میں میثاق جمہوریت کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئی تیسری طاقت کو کھڑا کیا، بالکل اسی طرح آج سیاست دانوں کو تحریک انصاف کے ساتھ تمام اختلافات بھلا کر ہاتھ ملانا چاہیے اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ملک کے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف انتقامی رویہ اختیار نہیں کریں گے۔‘‘

’سیاست دانوں نے تاریخ سے نہیں سیکھا‘

اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر جشن منانا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے سیاست دانوں کے آپس کے چاہے جتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کم از کم ان کا نقطہ نظر ایک ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور انہیں اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔‘‘

’ذمہ داری عمران خان پر بھی عائد ہوتی ہے‘

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ خود عمران خان نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ حمایت کی اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے وہ اقتدار میں آئے۔ انہوں نے سیاست میں بہت منفی رجحانات کو فرو غ دیا اور سارے سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیا۔

معروف سیاستدان اور سابق سینٹر افراسیاب خٹک کا خیال ہے عمران خان نے ماضی میں غلط روایات کو قائم کیا جس کا خمیازہ آج انہیں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے: ''ماضی میں جب نواز شریف صاحب کو سزا ہوئی تھی تو عمران خان، جہانگیر ترین اور دوسرے لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، جو غلط تھا اور آج اگر کوئی اور سیاسی جماعت عمران خان کی گرفتاری پہ جشن منا رہی ہے تو یہ بھی بالکل غلط ہے۔‘‘

افراسیاب خٹک کے مطابق عمران خان نے یہ بھیانک غلطی کی کہ انہوں نے سارے سیاست دانوں کو چور قرار دیا: ''اس طرح کا طرز عمل پارلیمانی جمہوریت میں نہیں چلتا، جہاں آپ کو اپنا نقطہ نظر رکھنا پڑتا ہے اور دوسروں کا نقطہ نظر سننا پڑتا ہے، لیکن عمران خان نے تمام سیاست دانوں کو چور ڈاکو قرار دے کر مذاکرات کے سارے دروازے بند کر دیے۔ اس طرح انہوں نے خود غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کو مضبوط کیا اور وہ ہاتھ آج ان کے خلاف بھی استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘

جنرل مشرف نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی جس پر انہیں بغاوت کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تا ہم ان کے مقدر میں بھی جیل نہیں آئی بلکہ وہ آسانی سے ملک سے فرار ہو گئے۔تصویر: Reuters

’جرنیلوں کو سزا کیوں نہیں ہوتی‘

پاکستان میں فوجی آمروں اور فوجی افسران پر مختلف نوعیت کے الزام لگتے رہے ہیں۔ کچھ جرنیلوں پر کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے بھی الزامات لگے جبکہ کئی فوجی سربراہوں نے آئین شکنی کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کیا لیکن کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی۔ افرا سیاب خٹک کے مطابق جرنیلوں کو سزا اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان میں اصل اختیار جرنیلوں کے پاس ہے اور سیاست دان صرف جرنیلوں کی پالیسی پر عمل درآمد کراتے ہیں: ''حمود الرحمان کمیشن نے یحییٰ خان کے حوالے سے یہ سفارش کی تھی کہ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے لیکن ایئر مارشل رحیم اور جنرل گل حسن نے ان کو بچا لیا اور انہیں نظر بند کیا گیا اور کوئی سزا نہیں دی گئی اور وفات پر انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔‘‘ افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ اسی طرح جنرل مشرف نے بھی آئین شکنی کی لیکن ان کو بھی فوج نے بچا لیا اور انہیں بھی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہنا ہے کہ فوجی جرنیلوں کو اس لیے سزا نہیں ہوتی کہ ادارے کے سارے لوگ متحد ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے جرنیلوں کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں جب کہ سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور متحد نہیں ہوتے۔

ایوب ملک کا کہنا ہے کہ کسی کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا عدالتی نظام اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ میں ہوتا ہے اس لیے وہ ایسے فیصلے دے ہی نہیں سکتی‍ں جو جرنیلوں کے خلاف ہو۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

07:43

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں