1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی گرفتاری کے پاکستانی سیاست پر ممکنہ اثرات

9 مئی 2023

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اس وقت مقبولیت کے اس مقام پر ہیں کہ گرفتاری سے انہیں مزید سیاسی برتری حاصل ہو گی تاہم ان کی حراست کے عرصے میں طوالت ان کی پارٹی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

Pakistan Ex-Premierminister Imran Khan
تصویر: Imran Khan/Twitter/REUTERS

قومی احتساب بیورو (نیب) نے رینجرز کے ذریعے عمران خان کو آج  بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے مبینہ طور پر بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا۔ سابق وزیر اعظم کو گرفتاری کے بعد نیب راولپنڈی کے دفتر منتقل کر دیا گیا، جہاں مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سرکاری ڈاکٹروں پر مشتمل ایک میڈیکل بورڈ نے ان کا طبی معائنہ بھی کیا۔

ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نےعمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر وفاقی سیکرٹری داخلہ سمیت ڈائریکٹرجنرل نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو عدالت میں طلب کر لیا۔

’مقبولیت کے زعم میں عمران خان زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں‘

عمران خان منگل کے روز انتہائی سخت سکیورٹی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تھےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP

عمران خان پر تشدد کیا گیا، وکیل

 عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نےعدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو گرفتاری کے وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے گرفتاری کے لیے آنے والے اہلکاروں پر عمران خان کے سر پر لوہے کا راڈ مارنے اور ان کی پہلے سے زخمی ٹانگ کو بھی نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

تاہم وفاقی وزیر دخلہ رانا ثناء اللہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان خود سے نیب میں پیش ہو جاتے تو انہیں گرفتار کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ میں مبینہ طور پر ساٹھ ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہونے پر نیب نے گرفتار کیا ہے۔

مقبولیت میں اضافہ

پاکستان میں بہت سارے سیاسی پنڈتوں کے خیال میں عمران خان اپنی سیاسی شہرت کے عروج پر ہیں اور پاکستان میں عموماً سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد انکی شہرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس گرفتاری سے پی ٹی آئی کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ سیاسی فائدہ ہوگا۔

پی ٹی آئی نے’جمہوریت کے تحفظ‘ کے لیے امریکہ سے مدد مانگ لی

 لاہور میں مقیم سیاسی امور کے ایک  تجزیہ نگار احسن رضا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان مزاحمت کے استعارے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست دان ہمیشہ عوام میں مقبولیت پاتا ہے۔ خصوصاﹰ اگر وہ اس مخالفت کی وجہ سے جیل جاتا ہے، تو اس کی شہرت میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘

مجھے گرفتار کر لیا جائے گا، عمران خان

01:23

This browser does not support the video element.

 تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اپنی جماعت کی سربراہ کی سلامتی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔  سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی اور پی ٹی آئی کے ایک رہنما جمشید اقبال چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں خدشہ ہے کہ عمران خان پر نہ صرف زیادہ سے زیادہ مقدمات بنا کر انکو گرفتار رکھا جائے گا بلکہ ان پر تشدد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور انہیں جسمانی طور پر نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔‘‘

 جمشید اقبال چیمہ کے مطابق اس گرفتاری کے پیچھے صرف حکومت نہیں ہے بلکہ ان کی سہولت کار یعنی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔

کریک ڈاون میں مذید سختی کا امکان

واضح رہےکہ پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور کئی رہنماؤں پر مقدمات ہیں لیکن کئی حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ پی ٹی آئی کی طرف نرم رہا ہے۔ تاہم اب یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس رویے میں بتدریج  سختی میں بدل رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے لئے برا وقت آرہا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی طرف سے احتجاج شروع کر دیا گیا۔ تاہم دوسری جانب حکومت کی جانب سے پرتشدد مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک کے مخلتف حصوں میں احتجاج کیا تصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس کے کارکنان عمران خان کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں لیکن تجزیہ نگار ڈاکٹر سرفرازخان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی مضبوط نظریاتی سیاسی جماعت نہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر ایسے سیاستدانوں کی تنظیم ہے، جو اپنے مفادات کے تحت ہمیشہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔

 ڈاکٹر سرفراز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر عمران خان کو طویل عرصے تک گرفتار رکھا گیا، تو پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور اس میں جو سیاستدان پہلے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے اور پی ٹی آئی میں آئے ہیں، وہ تحریک انصاف چھوڑ کر مختلف پارٹیوں کی طرف چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ قیادت کے حوالے سے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، عمران خان کی اہلیہ اور دوسرے پارٹی کے لوگ قیادت کے لیے لڑنا شروع ہوجائیں گے۔‘‘

عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں پر تشدد مظاہرے ہوسکتے ہیں۔

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

16:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں