عمران خان کا بیان: ملکی سیاست کا درجہ حرارت پھر بڑھ گیا
عبدالستار، اسلام آباد
5 ستمبر 2022
نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے عمران خان کے بیان نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں حدت پیدا کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر نے اس بیان کو افسوسناک قرار دیا جبکہ تحریک انصاف نے عمران خان کے بیان کا دفاع کیا ہے۔
اشتہار
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے مقبول رہنما ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات کو درست سمجھا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں لیکن جب کوئی سیاسی رہنما بہت مقبول ہوتا ہے یا عوام میں اسے پذیرائی زیادہ ملتی ہے، تو اس کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ لہذا ہر سیاستدان کو سوچ سمجھ کر اپنی زبان سے لفظ ادا کرنے چاہییں اور فوج کو سیاست میں نہیں کھینچنا چاہیے۔‘‘
جنرل غلام مصطفے کے مطابق یہ معاملہ صرف عمران تک نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں، چاہے وہ نواز شریف ہوں یا زرداری ہوں، چاہیے کہ وہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں اور فوج کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹیں۔
عمران خان نے کوئی غلط بات نہیں کی
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو آئین اور قانون کے خلاف ہو۔ پارٹی کی ایک رہنما مسرت جمشید چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خان صاحب نے صرف یہ کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر خالصتاً میرٹ پر ہونا چاہیے اور اور یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا ہے اور کرپشن کی ہے، کچھ طاقتور عناصر ان کی پشت پر ہیں۔ میرٹ پر تقرر ہونا فوج کے لیے بھی اچھا ہے اور ملک کے لیے بھی۔‘‘
عمران خان نے فیصل آباد میں ایک خطاب میں کہا تھا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف اپنا من پسند آرمی چیف لے کر آنا چاہتے ہیں کیونکہ ان دونوں نے پیسے چوری کیے ہیں اور یہ ڈرتے ہیں کہ اگر کوئی محب وطن فوجی سربراہ آگیا تو وہ ان سے اس بابت پوچھے گا۔ عمران خان کے بقول صرف اس ڈر سے یہ لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے من پسند آرمی چیف کا تقرر کر سکیں۔
اشتہار
آئی ایس پی آر کا ردعمل
دوسری طرف آرمی کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر نے بھی اس بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں فوج کے تعلقات عامہ نے کہا کہ اس بیان کی وجہ سے فوج میں شدید غم و غصہ ہے۔
آئی ایس پی آر نے مزید اس حوالے سے کہا کہ فوج کے سپہ سالار کے انتخاب کے عمل کو متنازعہ بنانا ریاست پاکستان اور ادارے کے مفاد میں نہیں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایسے وقت میں جب کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، پاک فوج کی سینیئر قیادت کو متنازعہ بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔
اس بیان کا نوٹس صرف پاکستان آرمی نے ہی نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اس حوالے سے کہا کہ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ افواج پاکستان میں کوئی محب وطن نہیں ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس کہا کہ عمران خان خود اس بیان کی وضاحت کریں کہ ان کے کہنے کا کیا مقصد تھا۔
ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عارف علوی نے کہا کہا فوج ملک پر جان دیتی ہے۔ آرمی چیف سمیت پوری فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
اختلافات کی تاریخ
واضح رہے کہ عمران خان نے ماضی میں جنرل قمر باجوہ کی متعدد مواقعوں پر تعریف کی اور انہیں جمہوریت پسند قرار دیا ہے۔ جب عمران خان 2018ء میں اقتدار میں آئے تھے تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان میں اور فوج میں بہت قربت ہے اور کئی مواقع پر ان کو اور جنرل باجوہ کو ایک ساتھ دیکھا گیا۔ تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ نئے ڈی جیآئی ایس آئی کے تقرر کے مسئلے پر سابق وزیراعظم عمران خان اور فوج کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا دعوی تھا کہ عمران خان جنرل فیض حمید کو مزید کچھ عرصہ تک ک ڈی جی آئی ایس آئی رکھنا چاہتے تھے،جب کہ فوج نے ان کا تبادلہ پشاور کر دیا تھا۔
عمران خان کا سیاسی سفر، تحریک عدم اعتماد تک
04:08
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان پہلے وزیراعظم نہیں ہیں جن کے فوج کے سربراہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے بلکہ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں پر وزیراعظم کے فوج کے سپہ سالار سے اختلافات پیدا ہوئے اور معاملات کشیدگی تک پہنچ گئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا کہ جنرل گل حسن کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، تو انہوں نے نہ صرف جنرل گل حسن کو ان کے عہدے سے ہٹایا بلکہ ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل عبدالرحیم کو ان کے عہدے سے ہٹایا۔ بالکل اسی طرح بے نظیر بھٹو کے شروع میں فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ سے تعلقات اچھے تھے اور وہ انہی سے معاہدہ کر کے اقتدار میں آئی تھیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ان کے جنرل حمید گل سے اختلافات ہوئے اور بعد میں ان کے جنرل اسلم بیگ بھی تعلقات خراب ہو گئے۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے معاملے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا معاملہ کچھ زیادہ گھمبیر ہے، جن کے کئی جرنیلوں سے تعلقات کشیدہ رہے۔
توصیف احمد خان کے مطابق نواز شریف کے تعلقات نہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ بہتر رہے اور نہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ساتھ بہتر رہے، ''انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو ہٹایا اور جنرل مشرف کو بھی ان کے عہدے سے معزول کیا۔ ان کے گزشتہ دور حکومت میں ان کے نہ صرف کشیدہ تعلقات جنرل ظہیرالاسلام سے رہے، جو آئی ایس آئی کے چیف تھے، بلکہ ان کے جنرل راحیل شریف سے بھی اچھے تعلقات نہیں تھے۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔