عمرے کی دوبارہ اجازت، سات ماہ بعد خانہ کعبہ کی رونق واپس
4 اکتوبر 2020
سات ماہ کے تعطل کے بعد اتوار چار اکتوبر سے عمرے ے کی محدود اجازت دے دی گئی ہے۔ زائرین نے گروپوں کی صورت میں ماسک پہن کر اور ایک دوسرے سے مناسب فاصلے رکھتے ہوئے خانہ کعبہ کے گرد طواف کیا۔
اشتہار
کئی ماہ کی پابندی کے بعد اتوار کے روز گروپوں کی شکل میں ہزاروں زائرین عمرے کے لیے مکہ میں مسلمانوں کے مقدس ترین مقام مسجد الحرام میں داخل ہوئے۔ مسلمان عمرہ سال میں کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان ہر مہینے عمرے کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ پہنچتے ہیں لیکن رواں برس مارچ میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عمرے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سعودی وزیر حج محمد بنتن کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ عمرے کی مکمل بحالی تین مرحلوں میں کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں ایک دن کے مختلف اوقات میں یومیہ چھ ہزار عازمین کو عمرہ کرنے کی اجازت ہو گی۔ سرکاری میڈیا کے مطابق عمرے کے دوران کسی بھی وبائی انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔
حجر اسود اور احتیاطی تدابیر
کعبے کے مشرقی کونے میں حجر اسود (سیاہ رنگ کا پتھر) نصب ہے۔ دوران عمرہ اس کو بوسہ دینے کا رواج ہے لیکن ایسا کرنا فرض نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اب کسی بھی شخص کو اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح لوگ گروپوں کی صورت میں عمرہ کریں گے اور ہر گروپ کی طرف سے عمرے کی ادائیگی سے پہلے اور بعد میں مسجد الحرام کی جراثیم کش محلول سے لازمی صفائی کی جائے گی۔
طبی عملہ ہر وقت موجود
سعودی وزیر حج محمد بنتن کا کہنا تھا کہ عمرہ کرنے والے ہر گروپ کے ساتھ بیس سے پچیس افراد پر مشتمل طبی عملہ بھی وہاں موجود ہو گا تا کہ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
دوسرا اور تیسرا مرحلہ
عمرے کا دوسرا مرحلہ اٹھارہ اکتوبر سے شروع ہو گا اور اس مرحلے میں یومیہ پندرہ ہزار تک افراد کو عمرے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح یہ تعداد مجموعی طور پر چالیس ہزار تک بڑھائی جائے گی اور اس میں عام نمازی بھی شامل ہوں گے۔
غیر ملکیوں کو عمرے کی اجازت یکم نومبر سے دی جائے گی اور تب یومیہ عمرہ کرنے والوں کی تعداد بڑھا کر بیس سے بتدریج ساٹھ ہزار تک کر دی جائے گی۔ ایک ماہ قبل سعودی حکام کا کہنا تھا کہ دنیا بھر سے مسلمان خواہش کر رہے ہیں کہ مسجد الحرام کو جلد از جلد دوبارہ کھولا جائے۔
حالیہ تاریخ میں پہلی بار رواں برس حج بھی انتہائی محدود سطح پر کیا گیا تھا اور صرف دس ہزار افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ عام طور پر حج کے لیے ہر سال تقریباﹰ پچیس لاکھ افراد مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔
ا ا / م م ( اے ایف پی، ڈی پی اے)
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔